وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے پنجاب میں گورنر راج لگانے کی دھمکی دے دی ہے۔ یہ دھمکی ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ملک کے سب سے بڑے صوبے میں حکمراں اتحاد کی حکومت کا خاتمہ ہو اہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب میں اُن کے داخلے پر پابندی لگائی گئی تو پنجاب میں گورنر راج لگانے کی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
رانا ثناء اللہ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے سیاسی صورتِ حال مزید خراب ہوئی ہے جب کہ وکلا برادری کی اکثریت سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دے رہی ہے۔
عدالتی فیصلے پر مزید تبصرہ کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ بولے کہ اُن کے نزدیک آرٹیکل 63 اے کی تشریح پائیدار نہیں رہے گی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک رُکن اسمبلی ووٹ بھی کاسٹ نہ کرے، وہ گنا بھی نہ جائے اور اسے ڈی سیٹ کر دیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پہلے 25 اراکینِ اسمبلی کو ڈی سیٹ کیا اور ابھی اسی نوعیت کے دوسرے فیصلے میں مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹ درست قرار دے دیے۔
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہونے کے بعد وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار صرف اسلام آباد تک محدود ہو گیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا اپنا اختیار اور اہمیت ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے منگل کی شب چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کی رُولنگ مسترد کر کے چوہدری پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی پنجاب قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی سے گورنر پنجاب منگل کی رات ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے حلف لیں، تاہم گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے چوہدری پرویز الہٰی سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد منگل اور بدھ کی درمیانی شب دو بجے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں چوہدری پرویز الہٰی سے حلف لیا تھا۔
'وفاقی حکومت اب وینٹی لیٹر پر ہے'
بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ وفاق کی حکومت کو گرانا تحریکِ انصاف کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اب وینٹی لیٹر پر ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ کا پنجاب میں گورنر راج لگانے کا بیان شرمناک ہے۔ اُن کے بقول رانا ثناء اللہ گورنر راج سے متعلق شق کو پڑھ لیں کہ وہ کن حالات میں لگ سکتا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) احمقانہ پالیسی پر گامزن ہے، یہ اب ناراض لیگ بن کر بیانیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اُنہیں نہیں ملے گا۔
رہنما تحریکِ انصاف کا کہنا تھا کہ اُن کی پارٹی حکومت سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی رکھتی ہے۔ کور کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی کہ آگے کیا کرنا ہے۔
گورنر راج کن حالات میں لگ سکتا ہے؟
پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے شامل ہونے کے بعدملک کے کسی بھی صوبے میں گورنر راج یا ایمر جنسی نافذ کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم کی ایڈوئس پر صدر پاکستان کسی بھی صوبے میں گورنر راج یا ایمرجنسی نافذ کر سکتا تھے، لیکن اب آئین کے آرٹیکل 232 اور 234 کے تحت کسی بھی صوبے میں گونر راج یا ایمرجنسی نفاذ کرنے کے لیے کچھ حدود وضع کر دی گئی ہیں۔
پاکستان کے ممتاز ماہر قانون اور وکیل حامد خان کہتے ہیں کہ کسی بھی صوبہ کا گورنر اگر صدر کو رپورٹ بھیجتا ہے کہ صوبے کی حکومت کو آئین کے مطابق چلانا ممکن نہیں رہا تو اس صورت میں صدر ایمر جنسی یا گورنر راج نافذ کرسکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے جلیل اختر سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان کا کہنا تھا کہ گورنر کی رپورٹ کے مطابق کسی بھی صوبے میں اندرونی خلفشار کی صورت میں گورنر راج لگانے کی توثیق ایک قرار داد کے ذریعے متعلقہ صوبائی اسمبلی سے ضروری ہو گی۔
اُن کے بقول اگر صدر پاکستان وفاقی حکومت کی ایڈ وائس پر اپنے طور پر کسی بھی صوبے میں گورنر راج یا ایمرجنسی نا فذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس صورت میں انہیں اپنے اس فیصلے کی 10 روز کے اندر پارلیمان کے دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ایک قرار داد کے ذریعے توثیق کرانا ہو گی۔
پاکستان کے آئین کے تحت اگر کسی صوبے کا گورنر صدر کو رپورٹ دے کہ اس کے صوبے کی حکومت آئین کے مطابق کام نہیں کر رہی تو صدر صوبائی حکومت کے اختیارات اپنے پاس رکھ سکتے ہیں یا انہیں متعلقہ صوبے کے گورنر کے سپرد کر سکتے ہیں۔
آئین کے مطابق کسی بھی صوبے میں آئین کے ضابطہ کار کے تحت نافذ ہونے والے گورنرراج کی مدت صرف دو ماہ تک ہو سکتی ہے اور اس کی توثیق بھی پارلیمان کے مشترکہ ایوان سے کروانی ضروری ہو گی۔
حامد خان کہتے ہیں کہ اگر صدر پاکستان، کسی صوبے میں گورنر راج لگانے کی وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر دستخط سے انکار کر دیتے ہیں تو پھر گورنر راج کا نفاذ مشکل ہو جائے گا۔