دنیا بھر میں چوہوں کو بیماریاں پھیلانے اور اشیا کو کتر کر نقصان کرنے کی وجہ سے ناپسند کیا جاتا ہے۔امریکہ کے شہر نیویارک میں تو خاص طور پر چوہوں کی بہتات کو ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے اور اس بار ان کا صفایا کرنے کے لیے باقاعدہ ایک عہدے دار کا تقرر کیا گیا ہے۔
لیکن امریکہ ہی کی ریاست کیلی فورنیا کے سین ڈیاگو چڑیا گھر میں تنزانیہ سے 'چوہوں کے سفیر'لائے گئے ہیں جو اپنے ہم نسل حیوانات کی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ کے تین چڑیا گھروں کو تنزانیہ میں قائم ایک تنظیم نے یہ چوہے فراہم کیے ہیں۔ یہ تنظیم افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان بڑے چوہوں کو جنگلی حیات کی اسمگلنگ اور بیماریوں کی تشخیص کے لیے تربیت دیتی ہے۔
تنزانیہ سے لائے گئے یہ افریقی چوہے عام طور پر شہروں یا انسانی آبادیوں میں پائے جانے والے بھورے چوہوں سے جسامت میں دگنے ہوتے ہیں۔ ان چوہوں کو انگولا، موزمبیق اور کمبوڈیا میں بارودی سرنگوں کا پتا لگانے کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے اور ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں 'ہیرو ریٹ' کہا جاتا ہے۔
ان چوہوں کو ان کی سونگھنے کی تیز حس کی وجہ سے ملبے تلے دبے افراد کو تلاش کرنے، بیماریوں کی تشخیص اور بندرگاہوں اور ایئر پورٹس پر غیر قانونی اشیا کی نقل و حرکت روکنے جیسے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
ایسے چھ افریقی چوہے تنزانیہ کی بندر گارہ پر ایک ماہ کی آزمائش پوری کرچکے ہیں جس میں انہیں اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان چوہوں کو ممنوعہ اشیا کی نشان دہی کی تربیت بھی دی گئی تھی۔بندر گاہ پر انہیں خاص طور پر تنزانیہ سے پنگولین کی اسمگلنگ روکنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
معدومی کے خطرے سے دوچار پنگولین کے جسم پر پائے جانے والے چھلکے چین کی روایتی ادویہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔یہ دنیا کا سب سے زیادہ اسمگل ہونے والا جانور ہے جب کہ ویتنام میں اس کا گوشت کھانے کو خاص تصور کیا جاتا ہے۔
جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم وائلڈ لائف الائنس کے مطابق افریقی چوہے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کی روک تھام میں انتہائی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
وائلڈ لائف الائنس کے زیرِ اہتمام قائم سین ڈیاگو چڑیا گھر بھی جنگلی حیات کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ کو اجاگر کرنے کا مشن رکھتا ہے۔
’بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر چوہے ہوں گے‘
تنزانیہ میں چوہوں کو تربیت دینے والی ایک تنطیم سے منسلک محقق ازی زوت کا کہنا ہے لوگوں کے ذہن میں چوہا 'دشمن نمبر ایک' ہے لیکن بنیادی طور پر چوہے صاف ستھرے رہنے والے جانور ہیں البتہ ان کا تاثر بہت خراب ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات سے متعلق ہمیں اپنی ذمے داریاں سمجھتے ہوئے ان سے متعلق نکتۂ نگاہ بدلنا ہوگا، اس کے لیے دنیا کے معروف چڑیا گھروں میں چوہے رکھنے سے ان کے بارے میں عام تصورات کو بدلا جاسکتا ہے۔
ازی زوت کے مطابق افریقہ میں چوہوں نے سونگھ کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ بارودی سرنگوں کی نشاندہی کی۔ اس کے علاوہ ان چوہوں نے افریقہ میں انسانوں سے حاصل کیے گئے 25 ہزار نمونوں میں ٹی بی کی تشخیص کی۔
تنزانیہ میں افریقی چوہوں کو مٹی میں پائی جانے والی آلودگی، زلزلے ، دھماکے یا حادثے کی صورت میں عمارتوں کے ملبے تلے دبے افراد کا پتا لگانے کی تربیت دی جارہی ہے۔
ازی زوت کے مطابق تجرباتی سطح پر یہ چوہے اپنے انسٹرکٹر کو دیے گئے ٹاسک کے مطابق خبردار کرنے میں کام کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بہت جلد ممکن ہے کہ ان چوہوں کو سونگھنے والے کتوں کی طرح بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر دیکھیں گے۔ پھر یہ اخراجات کے اعتبار سے سونگھنے والے کتوں کے مقابلے میں سستے پڑتے ہیں۔
ان چوہوں میں کئی دیگر انواع کے جانوروں کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس لیے انہیں ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگھ وغیرہ کی نشان دہی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
دشوار گزار مقامات پر کسی انسان کے پھنسے ہونے کی نشاندہی کرنے کے لیے چوہوں کو ایک پٹہ پہنایا جائے گا جس کے ذریعے وہ کسی شخص کے ملبے پر باہر موجود افراد کومطلع کرسکیں گے۔
ازی زوت کا کہنا ہے کہ نیویارک سٹی میں پائے جانے والے عام بھورے چوہوں میں بھی یہی صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن ان کی عمر کم ہونے کی وجہ سے انہیں تربیت نہیں دی جاسکتی۔ افریقی چوہوں کی اوسط عمر لگ بھگ 10 سال ہوتی ہے جب کہ عام چھوٹے چوہے چند ہی سال جیتے ہیں۔
اس خبر کے لیے معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس’ سے لی گئی ہیں۔