رسائی کے لنکس

پاکستان کا آئی ایم ایف سے قرض پروگرام تعطل کا شکار، وجہ کیا ہے؟


  • پاکستانی حکام کو امید ہے کہ اب اگست کے آخر کے بجائے پروگرام کی حتمی منظوری ستمبر میں مل سکتی ہے۔
  • معاشی ماہرین کے مطابق صورتِ حال سے واضح ہو رہا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے رول اوور کے معاملات اب تک طے نہیں ہو پائے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو رواں سال 27 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
  • بعض معاشی ماہرین کے مطابق پنجاب میں بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے لیے دی گئی 14 روپے فی یونٹ رعایت پر بھی فنڈ کے تحفظات ہوسکتے ہیں۔

ویب ڈیسک _ ​بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان سات ارب ڈالر قرض پروگرام کا اجرا تاحال تعطل کا شکار ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق التوا کی وجہ حکومت کو چینی قرضوں کو رول اوور کرنے کی یقین دہانیوں کے ساتھ پنجاب حکومت کی بجلی کے بلوں میں دی جانے والی حالیہ سبسڈی ہو سکتی ہے۔

پاکستانی حکام کو امید ہے کہ اب اگست کے آخر کے بجائے پروگرام کی حتمی منظوری ستمبر میں مل سکتی ہے جب کہ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے تحت طے شدہ اصلاحات کے لیے کوشاں ہے۔

حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں برس 12 جولائی کو 37 ماہ کے لیے سات ارب ڈالر فراہمی کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا۔ پروگرام کی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی اجازت سے مشروط تھی۔

تاہم ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے قبل حکومتِ پاکستان کو ان ممالک سے ضروری فنانسنگ کی تصدیق لازم قرار دی گئی تھی جن سے پاکستان نے قرض حاصل کر رکھے تھے جو آنے والے مہینوں میں واجب الادا ہیں۔

معاشی ماہرین کے مطابق صورتِ حال سے واضح ہو رہا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے رول اوور کے معاملات اب تک طے نہیں ہو پائے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو رواں سال 27 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

اس سے قبل وفاقی وزیرِ خزانہ نے اگست کے شروع میں ایسی اطلاعات کو رد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے ذمے واجب الادا 12 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں جلد ہی پاکستان سے متعلق ایجنڈا شامل کر لیا جائے گا۔

البتہ فنڈ کی ویب سائٹ پر ایگزیکٹو بورڈ کے 30 اگست تک جاری شیڈول میں پاکستان کا کوئی تذکرہ نہیں اور اس حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے نہ ہی کوئی فوری جواب موصول ہوا ہے۔

رواں ہفتے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیرِ خزانہ نے ایک بار پھر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور امید ہے کہ ستمبر میں ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ میں پاکستان کا کیس بھی شیڈول میں ڈالا جائے گا۔

جمعرات کو وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک تقریب سے خطاب میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام جڑیں پکڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی واپس آرہا ہے۔

انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کا توسیعی فنڈ پروگرام ملک کے معاشی استحکام کو مستقل کرنے میں مدد دے گا۔

وزیر خزانہ کی جانب سے حوصلہ افزا بیانات کے باوجود معاشی ماہرین فنڈ کے قرض پروگرام کے اجرا میں تاخیر پر خدشات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔

معاشی امور کے ماہر اور کراچی میں مقیم تجزیہ کار عبد العظیم خان کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اب بھی چین سے قرضوں کے رول اوور حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے جن کے بارآور ثابت ہونے میں کچھ وقت لگ رہا ہے۔

ان کے مطابق چین کی حکومت اور چینی بینکوں کے واجب الادا رقم کوئی سات ارب ڈالرز بنتی ہے جسے فنڈ کے پروگرام سے قبل رول اوور کرانا ضروری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے پانچ ارب ڈالر کے قرضوں کو رول اوور کرنے میں کوئی خاص دقت معلوم نہیں ہوتی لیکن چین کے ساتھ اس وقت معاشی تعلقات کے میدان میں پاکستان کو قرضوں کے رول اوور میں بظاہر مشکلات ہیں۔

عبد العظیم خان کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت لگائے گئے توانائی کے منصوبوں میں پاکستان کے ذمے مجموعی طور پر 16 ارب ڈالر کی رقم ہو چکی ہے اور اس کی ادائیگی بھی پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے۔

اس ضمن میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیرِ توانائی سردار اویس لغاری چین کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ تاہم اس کے مثبت نتائج سامنے نہ آنے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چینی قیادت کو قرضے ری شیڈول کرنے سے متعلق خط بھی لکھا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے کابینہ اجلاس میں بھی کیا تھا۔

تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خط پر چینی قیادت کی جانب سے کس ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن فنڈ کو رول اوور کی یقین دہانی نہ ملنے پر ہی پاکستان سے متعلق ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس اب تک بلایا نہیں گیا ہے۔

'قرض پروگرام کے حصول کے لیے مشکل فیصلے کیے'

حکومت کو آئی ایم ایف کی ڈیل کا حصول یقینی بنانے کے لیے حالیہ عرصے میں کئی ایسے فیصلے کرنے پڑے ہیں جس سے ملک میں بجلی مہنگی اور ٹیکس کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے بقول ان فیصلوں سے رواں برس برسر اقتدار آنے والی حکومت کی غیر مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

حکومت نے رواں سال ٹیکس وصولی کا ہدف 12 ہزار 980 ارب روپے رکھا ہے جو گزشہ مالی سال کے مقابلے میں تقریبا 40 فی صد زیادہ ہے۔ اس مقصد کے لیے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھانے کے ساتھ کئی اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی گئی۔

اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی ٹیکس کی شرح بڑھانے سمیت ٹیکس نیٹ سے باہر بعض شعبوں کو نیٹ میں لانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں۔

ان سیکٹرز میں سب سے اہم ایکسپورٹرز یعنی برآمد کنندگان اور زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا پروگرام شامل ہے۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں ایکسپورٹرز کو بھی نارمل ٹیکس رجیم میں لانے کا اعلان کیا تھا تاہم زرعی آمدن کو بتدریج آئندہ سال جنوری تک ٹیکس نیٹ میں لایا جانا ہے۔

معاشی ماہر احمد فاروق کے مطابق حکومت کے ان غیر مقبول فیصلوں کا مقصد فنڈ کی جانب سے ڈیل کا حصول ممکن بنانا تھا کیوں کہ اس کے بغیر پاکستان کے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی تقریبا ناممکن دکھائی دیتی تھی اور ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کو رواں سال 27 ارب ڈالر کے علاوہ آئندہ تین سال تک 25 ارب ڈالر سے زائد رقم درکار ہے جس سے وہ اپنی بین الاقوامی ادائیگیاں کر پائے۔

احمد فاروق کا کہنا ہے کہ حکومت کے صرف ملک کے اندر ٹیکس وصولیوں کو بڑھانے سے بات نہیں بن پا رہی بلکہ اسے دوست ممالک سے قرضوں کی ادائیگی میں رعایتیں بھی درکار ہیں۔ جس کا حصول اس وقت قرض پروگرام کے شروع کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد یا بدیر اس کا کوئی مثبت راستہ نکل آئے گا اور پاکستانی حکام چین سمیت دیگرقرض دہندگان دوست ممالک کو اس پر قائل کرلیں گے۔

بعض معاشی ماہرین کے مطابق پنجاب میں بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے لیے دی گئی 14 روپے فی یونٹ رعایت پر بھی فنڈ کے تحفظات ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ آئی ایم ایف حکومت کو توانائی کے شعبے میں نقصانات ختم کرنے اور اس متعلق صرف ٹارگٹڈ سبسڈیز دینا تجویز کرچکا ہے۔

سینئر ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کے خیال میں حکومتی عہدیداروں نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حکام کو اس امدادی پیکج پر آمادہ کیا ہو گا تب ہی اس کا اعلان کیا گیا ہے۔

ان کے خیال میں بجلی کے رعایتی پیکجز اور آئی ایم ایف کو اس پر آمادہ کرنے سے بڑھ کر بجلی کے شعبے میں اصلاحات لانے کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے کیوں کہ اس شعبے کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ جو ملک کی معاشی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG