رسائی کے لنکس

'مجرم نے کہا جرم کرنا ٹی وی پر کرائم شوز دیکھ کر سیکھا'


 پیغمبراسلام نے تو کبھی بھی اپنی کسی شریک حیات پر تشدد نہیں کیا، تو یہ کس طرح مذہب کا نام ایسے معاملات میں لیا جاتا ہے؟ یہ صرف ایک طبقہ ہے جن کے گھر میں کھانا نہ پکانے جیسے موضوعات پر لڑائی ہوجائے، تو بھی یہ اس کی ذمہ داری مذہب پر ڈال دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو)
پیغمبراسلام نے تو کبھی بھی اپنی کسی شریک حیات پر تشدد نہیں کیا، تو یہ کس طرح مذہب کا نام ایسے معاملات میں لیا جاتا ہے؟ یہ صرف ایک طبقہ ہے جن کے گھر میں کھانا نہ پکانے جیسے موضوعات پر لڑائی ہوجائے، تو بھی یہ اس کی ذمہ داری مذہب پر ڈال دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو)

'کراچی میں رینجرز نے ہم سے رابطہ کیا کہ ہم نے کچھ خطرناک مجرم گرفتار کیے ہیں۔ تفتیش میں جب ان سے پوچھا کہ جرم ایسی مہارت سے کرنا کیسے سیکھا، پڑھے لکھے تو ہو نہیں، نہ تجربہ کار عادی مجرم ہو، تو ملزمان نے بتایا کہ ٹی وی پر کرائم شوز دیکھ دیکھ کر سیکھا۔ لہذٰا رینجرز کی اس شکایت پر پیمرا نے کچھ کرائم شوز پرپابندی لگائی'۔

پاکستان کے سینئیر صحافی ابصارعالم کے بقول، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ، جب وہ ملک کی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا )کے سربراہ تھے ۔ ان کے بقول ایسی خبریں اب بھی رپورٹ ہو رہی ہیں، جن سے مجرمانہ ذہن کے حامل افراد کو جرم کرنے کےراستے پتہ چلیں۔"مثلاً نور مقدم کیس ہی دیکھ لیں (کیا رپورٹنگ ہو رہی ہے) پھر اس کے بعد کراچی میں بھی ایک خاتون کے ایک شہری کا سر کاٹنے کی خبر میڈیا پر چلائی گئی" ۔ انہوں نے کہا۔

پچھلے کچھ عرصے کے دوران تواتر سے خواتین کے خلاف جرائم کی خبریں میڈیا کی ہیڈ لائنز کا موضوع بنتی رہی ہیں۔ پاکستان کے کئی چھوٹے بڑے شہروں، اسلام آباد، کراچی، پشاور ، حیدر آباد، اندرون سندھ، اوکاڑہ، وہاڑی اور دیگر شہروں میں خواتین کے خلاف جرائم ہوئے ہیں اور ان کی خبریں رپورٹ ہوئی ہیں۔

خواتین کے خلاف جرائم بڑھ رہے ہیں یا ان کی رپورٹنگ میں اضافہ ہو گیا ہے؟ کیاسخت سزاوں کا نہ ملناخواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کا سبب بن رہا ہے؟۔۔ کیا آزاد سوچ کا گلا گھونٹ دینے والے معاشرتی ضابطے انتہا پسندی پر مبنی مجرمانہ ذہن پیدا کر رہے ہیں؟کیا مذہبی تنگ نظری پر مبنی سوچ معاشرے کے حبس میں اضافہ کر کےایسےجرائم کی وجہ بن رہی ہے؟ ۔۔یا جنسی میلانات پر غیر ضروری پابندیاں اور بچوں کو جسمانی تعلیم سے محروم رکھنا معاشرے میں بڑے جرائم کی بنیاد رکھ رہا ہے؟ کیاپاکستان کا قانونی نظام عورتوں کے خلاف کسی بھیانک جرم کے مرتکب شخص کو سخت سزا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ اور اس جیسے بہت سے سوال عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مجرمانہ حملوں سے جنم لیتے ہیں۔

وائس آف امریکہ نے کوشش کی کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی وجوہات پر انسانی حقوق کے اداروں، سماجی شخصیات اور مختلف شعبوں نمایاں خواتین سےبات کی جائے۔

ع مطابق | عورت پر تشدد کیسے روکیں؟ | دوسرا پروگرام 6 دسمبر، 2021
please wait

No media source currently available

0:00 0:17:03 0:00

خواتین کے خلاف جرائم کی وجہ معاشرے میں بڑھتی تنگ نظری ہے؟

وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے مذہبی امور مولانا طاہر اشرفی معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی تنگ نظری کو خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی وجہ ماننے پر تیار نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ اس سب کی اصل وجہ 'مادر پدر آزادی' کا تصور ہے۔

اُن کے بقول جو بھی یہ کہہ رہا کہ مذہبی رجحانات میں اضافے یا مذہبی ماحول گہرا ہوجانے سے خواتین پر تشدد میں شدّت آتی جارہی ہے وہ مذہب سے واقف ہیں نہ مذہبی تعلیمات کا انہیں کوئی علم ہے۔ اگر وہ دین اسلام کو پڑھ لیتے تو وہ یہ بات کبھی نہ کرتے۔

طاہر اشرفی کا مزید کہنا تھا کہ آپ اگر صرف اس برس کے خلع کے مقدمات کے ہی اعداد و شمار دیکھ لیں تو وہ لاکھوں میں ہیں۔ اور ان میں اکثریت اُن جوڑوں کی ہے جو سوشل میڈیا کے ذریعے یا راہ چلتے رشتے میں منسلک ہوئے لیکن جب خمار اترتا ہے تو نوبت طلاق مانگنے تک آجاتی ہے۔

اُن کے بقول پیغمبرِ اسلام نے تو کبھی بھی اپنی کسی شریک حیات پر تشدد نہیں کیا تو یہ کس طرح مذہب کا نام ایسے معاملات میں لیتے ہیں ؟ یہ صرف ایک طبقہ ہے پاکستان میں جن کے اپنے گھر میں کھانا نہ پکانے جیسے موضوعات پر لڑائی ہوجائے تو بھی یہ لوگ اس کی ذمہ داری مذہب پر ڈالنے لگتے ہیں۔

طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا فرمان ہے کہ تم میں سے سب سے بہتر وہ جو اپنے 'اہل' کے لیے بہتر ہے اور اہل میں تو سب سے پہلے شریکِ حیات کو شامل کیا جاتا ہے۔

کیا ریاست خواتین کے حقوق پر سمجھوتے کرتی رہی ہے؟

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس سندھ کی کمشنر اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنما انیس ہارون کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف یہ سب کچھ نیا ہرگز نہیں۔

وی او اے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ “2009 سے 2012 تک چھ سات قوانین بنائے گئے اور پہلے بھی قوانین موجود تھے۔ ریاست قوانین بنا تو لیتی ہے مگر اُن کے مؤثر نفاذ میں کبھی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔جب بھی حکومت کو مذہبی جماعتوں سے سیاسی سمجھوتہ ، اتحاد یا مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ہمیشہ خواتین کے حقوق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔"

اُن کے بقول مذہبی جماعتیں خواتین کے حقوق اور آزادی کی مخالفت پر مبنی نظریات رکھتی ہیں اور لبرل یا روشن خیال جماعتیں بھی اقتدار کے لیے خواتین کے حقوق پر سمجھوتے کرلیتی ہیں۔ یہ سب سے آسان قیمت ہوتی ہے۔مگر ان سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہو گا کہ انہیں ووٹ دینے والوں میں ایک بڑی اور فیصلہ کن تعداد خواتین کی ہے۔

انیس ہارون سمجھتی ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھی شدّت آتی جاتی رہی ہے، مدارس سے ایک مخصوص سوچ کے حامل افراد کی کھیپ تیار ہورہی ہے، جو ہر ادارے میں دکھائی دینے لگی ہے۔

'عورت فاؤنڈیشن' سندھ کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھنے کی سب سے زیادہ ضرب عورت پر پڑی ہے۔ (پہلی افغان جنگ اور اُس میں پاکستان کی شمولیت کے وقت) جب یہ انتہا پسندانہ رجحانات بڑھ رہے تھے اور ہم ان خدشات کا اظہار کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ یہ چند 'فیشن ایبل ' خواتین کا 'خود ساختہ بیانیہ' ہے جو مذہبی حلقوں کی مخالفت پر مبنی ہے۔

اُن کے بقول اس انتہائی سوچ کے پھلنے پھولنے کی وجہ سے خواتین پر تشدد میں کس قدر اور کتنا اضافہ ہوا اور اس (خواتین کے خلاف تشدد و بدسلوکی) کی کوئی اور وجہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم مذہبی انتہا پسندی کی جانب گئے ہیں کیوں کہ وہ رجحان یہی ہے کہ عورت باندی اور کنیز ہے اور یہ آپ کا حق ہے کہ آپ خواتین پر تشدد کر سکتے ہیں۔

مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ ایک صحت مند معاشرے میں کھیل ، فن و ثقافت جمالیات وغیرہ کی سرگرمیوں سے ایک مثبت و صحت مند فضا جنم لیتی ہے مگر سابق فوجی آمر جنرل ضیا کے دور میں جب لڑکیوں کی ایسی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرکے گھٹن پیدا کردی گئی تو پھر لوگ تشدد و بدسلوکی کی جانب مائل ہوئے۔ اب تو لوگ قبروں سے لاشوں تک کو نکال کر جنسی ہوس کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہم کہتے رہ گئے کہ آزادی دیں ، جنسی تعلیم اور آگہی دیں، ورنہ یہی ہوگا اور دنیا نے دیکھ لیا، جو اب ہو رہا ہے۔

'جب ریاست ہی 'وکٹم بلیمنگ' کرے تو معاشرہ قدامت پسند ہو جاتا ہے'

صحافی اور میزبان عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ جب پارلیمان حکومت اور ریاست'وکٹم بلیمنگ' کرنے (مظلوم کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے) لگے کہ خواتین کے کپڑے ایسے ہونے سے یہ سب ہوتا ہے تو پھر ایک ایسا معاشرہ جسے 'قدامت پرست' بنا دیا گیا ہے وہ اس سب کو اسی تناظر میں دیکھتا ہے۔

انیس ہارون کہتی ہیں کہ وکٹم بلیمنگ تب ہوتی ہے جب عقلی دلائل ختم اور منطق ناکام ہوجائے۔

صحافی اور ٹی وی اینکر ماریہ میمن بھی کہتی ہیں کہ یہاں وکٹم بلیمنگ ہوتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ خواتین کے خلاف تشدد اور بدسلوکی پوری دنیا میں ہوتی ہے۔ عورت کے لباس ، پیشے حیثیت سے جرم کا کوئی تعلق نہیں۔

اُن کے بقول قوانین موجود ہیں مگر ملزمان پھر بھی بچ نکلتے ہیں اور معاشرتی خوف مظلوم کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے روک دیتا ہے۔ روبوٹ والی بات پر ہر طرف سے ردِعمل آیا خود عمران خان کی اپنی جماعت سے آیا اور خان صاحب کو وضاحت کرنا پڑی۔

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت نے وراثت کے حوالے سے تو کافی اچھی قانون سازی کی مگر جب عمران خان خواتین پر ، چاہے وہ سیاستدان ہوں یا صحافی ، بے جا تنقید کریں ، الزام تراشی کریں، تو اس سے نیچے بھی منفی پیغام جاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صورت ِحال تب ہی بہتر ہوسکتی ہے جب خواتین کو مساوی حیثیت سے فیصلہ سازی کا حق اور شمولیت دی جائے۔عمران خان کی 80 وزرا و مشیروں پر مشتمل کابینہ میں صرف دو خواتین ہوں اور فیصلہ سازی میں بھی اُن خواتین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہو تو پھر حکومت کی پالیسی صاف دکھائی دیتی ہے۔

کیا میڈیا کو خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کا ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

تاک شو میزبان ماریہ میمن کا کہنا ہے کہ اب بات زیادہ ہونے لگی ہے، پہلے خواتین سہم جاتی تھیں مگر اب آواز اٹھائی جاتی ہے۔ پھر خواتین سول سوسائٹی میں آگے بڑھی ہیں ان کی آواز بڑھتی جا رہی ہیں اب وہ چپ نہیں رہتیں۔ پھر کچھ بڑے واقعات ہوئے جیسے کہ موٹروے ریپ کیس یا نور مقدم کا معاملہ ہے جتنی بات اب خواتین کے خلاف جرائم پر ہو رہی ہے پہلے نہیں ہوتی تھی۔

ذرائع ابلاغ کے کردار پر مہناز رحمٰن نے کہا کہ (نیوز اینڈ کرنٹ افئیرز) میڈیا نے خواتین کے خلاف تشدد کا مقابلہ کرنے کے لیے سول سوسائٹی کا بھرپور ساتھ دیا اور آواز اٹھائی مگر (انٹرٹینمنٹ) میڈیا ڈراموں میں روتی دھوتی ہوئی تشدد کا شکار ہوتی ہوئی خواتین کو دکھاتا ہے اور وہ عورت بری دکھائی جاتی ہے جو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہو یا مزاحمت کر رہی ہو۔

صحافی اور ٹی وی میزبان عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک مخصوص ماحول پیدا ہوا، ٹی وی کے ڈرامے تک میں عورت کا کردار اور اہمیت سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ 1980 میں حسینہ معین کے ڈرامے میں بولڈ بہادر لڑکی دکھائی جاتی تھی۔ اب ایک مظلوم تشدد کا شکار لڑکی دکھائی جاتی ہے۔

ابصار عالم کہتے ہیں کہ ہر الزام میڈیا پر لگانا بھی درست نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ابصار عالم نے کہا کہ قانون میں عورت کو جو مقام حاصل ہے وہ عملاً نہیں دیا جاتا مگر ابصار عالم نے میڈیا کے کردار پر بھی زور دیا۔

اُن کے بقول “پہلے اخبارات (کے زمانے میں) لاشوں کی تصاویر شائع ہونے پر پابندی رہی مگر اب ٹی وی پر تو قتل کی سی سی ٹی فوٹیج دکھا دی جاتی ہے کہ لاش یا خون پڑا ہوا ہے۔ تو معاشرے میں تشدد تو بڑھے گا ہی۔

ابصار عالم کے بقول، ہر چیز میڈیا پر دکھانے کے لئے نہیں ہونی چاہیے ۔ فلم میں تو تنبیہ ہوتی ہے عمر کی حد بتائی جاتی ہے دیکھنے کے لیے۔ نیوز میڈیا تو سب دیکھ رہے ہیں۔ پھر بعض نام نہاد تجزیہ نگار آتے ہیں، ان کے ہی رویّے انتہا پسند بن گئے، ٹی وی پر کہتے ہیں کہ فائرنگ اسکواڈ کے حوالے کردو ، ایسے مطالبے تشدد پر اکساتے ہیں لوگوں کو خود ہی عدالت لگا کر مار ڈالنے کا خیال آتا ہے۔

خواتین کے خلاف جرائم میں سزاؤں کا تناسب کم کیوں؟

انیس ہارون کہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد اور بدسلوکی کے مقدمات کا جائزہ لیں تو عدالتوں سے سزا کا تناسب چار سے پانچ فی صد تک ہوتا ہے۔اُن کے بقول خواتین تنظیمیں تو صرف آواز ہی اٹھا سکتی ہیں مگر ہم نے قانون سازی تک میں بھی کردار ادا کیا مگر قانون کا نفاذ تو ہم نہیں کروا سکتے، یہ تو ریاست کو ہی کرنا ہے۔ عدالتی اور پولیس اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ ہم تو تاریخ کا پہیہ الٹا گھما رہے ہیں۔

انیس ہارون کہتی ہیں کہ جس ملک کا وزیرِ اعظم یہ کہے کہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے، خواتین ایسا ویسا لباس نہ پہنیں تو پھر اس معاشرے میں یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔

اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ وزیرِ اعظم کے ایسے بیانات سے کیا پرتشدد طبقات کو حوصلہ نہیں ملے گا؟ کیا اس سے خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ نہیں ہو گا؟ لہذٰا یہ جو ماحول بن چکا ہے اس میں ریاست بھی برابر کی ذمے دار بن رہی ہے۔

بچوں کو جسمانی تعلیم دینا مسئلے کا حل ہے؟

مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ جب تک آپ بچّوں کو اچّھے برے انداز سے چھوئے جانے کی تمیز نہیں سکھائیں گے اُن کو جسمانی علوم (بائیو لو جیکل) تعلیم نہیں دیں گے تو پھر بتائیں کہ (قصور کی معصوم بچّی) زینب جیسے واقعات کیسے رک سکتے ہیں ؟

مہناز رحمٰن نے جنسی تعلیم کی مخالفت کرنے والے حلقوں کا یہ جواز مسترد کردیا کہ کم سن بچّوں کو جنسی تعلیم یا آگہی دینے سے اُن کی معصومیت پر اثر پڑسکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ " آپ کو بچّوں کو بتانا پڑے گا کہ کسی کو آپ کے (حساس جسمانی اعضا) کو ہاتھ لگانے یا چھونے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو فوراً والدین یا اساتذہ کو بتائیں یہی تو آگہی ہے اورکیا چیز ہے تعلیم و تربیت ؟ سیکس ایجوکیشن تو اناٹمی یا بائیولوجی ہے۔"

کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوئی کوتاہی ہے ؟

خواتین کو ہر قسم کے جرائم سے تحفظ فراہم کرنے میں انہیں بھی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ؟ وی او اے نے یہ سوال ریجنل پولیس آفیسر ملتان جاوید اکبر ریاض کے سامنے رکھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ “چند ایک جرائم ایسے ہیں کہ پولیس بھی ان معاملات پر بہت حساس ہوتی ہے۔ مثلاً اقلیتوں ، بچوں اور خواتین کے خلاف جرائم کے معاملے پر پولیس بہت حساس ہوگئی ہے ان کو ہینڈل کرنے کو پولیس ترجیح دیتی ہے اس وجہ سے لوگ رپورٹ کرنے لگے ہیں اور اسی وقت پولیس حرکت میں آ جاتی ہے

اُن کے بقول اس سے پہلے کیسز آزادانہ طور پر رپورٹ نہیں ہوتے تھے۔ اب ہونے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ مواد بھی آرہا ہے اور جرائم پیشہ افراد کو بھی موقع مل رہا ہے ان کی رسائی بڑھ گئی ہے اور جرم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سائبر کرائم میں اضافہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہو رہا ہے۔ پولیس کی تفتیش پر یہ مشاہدہ درست ہے کہ تمام جرائم میں سزا کا تناسب کم ہے۔

جاوید اکبر کہتے ہیں کہ قوانین تو ہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں ، لیکن صرف پولیس ہی نہیں قانون دان برادری ، عدلیہ، سب کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں تفتیش کا دارومدار تین چار چیزوں پر ہے۔ ثبوت و شواہد ، گواہان موجود ہوں ، مگر ہمارے ملک میں گواہان کے تحفظ کے پروگرام نہیں ہیں۔ میڈیکو لیگل کے معاملات بھی ہیں۔ کوئی خاتون شکایت کرے ،تھانے آ کر دعویٰ کرے کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے تو میڈیکو لیگل معائنہ ہونے میں وقت لگ جاتا ہے۔

اُن کے بقول فارنزک سہولتوں کی کمی ہے۔ خواتین بھی اسی لیے مطمئن نہیں ہوتیں کیوں کہ سہولتیں نہیں ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ پولیس کی تفتیش متاثر ہوتی ہے۔ افسران و اہلکار کم ہیں وسائل کی کمی ہے۔ یہ سب طویل مدتی معاملات ہیں تمام متعلقہ حلقوں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔”

کیاسخت سزادینے کے لئے نئی قانون سازی درکار ہے یا قوانین پر عمل درآمد؟

مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ قوانین تو موجود ہیں مگر جب تک بنیادی خرابیاں دور نہیں کی جائیں گی مثلاً تعلیم عام نہیں جائے گی تب تک کچھ نہیں ہونے والا۔ پاکستان میں معاشرتی طبقات و حلقے اتنے مضبوط نہیں ہیں اور (خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی) بنیادی ذمہ داری تو ریاست ہی کی ہے۔ معاشرہ غربت کے ہاتھوں گداگری اور بچّے بیچنے تک پہنچ گیا ہے تو ریاست کو اپنی سمت درست کرنی چاہیے۔

انیس ہارون کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا اور کنونشنل میڈیا تو پوری دنیا میں ہے، وہاں کیوں نہیں خواتین کے خلاف ایسا اور اس پیمانے پر تشدد یا بدسلوکی یا جرم نہیں ہوتا ؟ وہاں کیسے قانون کی عملداری قائم ہے ؟ تو اصل بات قانون اور اس کا مؤثر نفاذ کی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس اصلاحات جیسی پیشرفت یا تو ہو نہیں سکی یا پھر مؤثر ثابت نہیں ہوسکی، تو ظاہر ہے کہ جرائم بڑھیں گے۔

طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پاکستان کی تمام مذہبی سیاسی قوّتوں نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ شہری قوانین کے مطابق آپ ریپ اور جنسی جرائم اور اس طرح کے واقعات کے ذمہ دار صرف 10مجرموں کو سزا دے دیں۔ آپ لٹکائیں ، آپ سنگسار کر دیں ، پھر دیکھیں کہ یہ واقعات ختم ہوتے ہیں کہ نہیں ہوتے ؟

طاہر اشرفی نے کہا کہ جائزہ لیں کہ یہ واقعات کرنے والے کون ہیں ؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی مذہبی آدمی نے نہیں کیا ہوگا مگر اکثریت وہ ہیں، یہ جو آزادی آ گئی ہے اب۔

اُن کے بقول اس پر سروے ہوچکے ہیں کہ فحاشی و عریانی کی ویب سائٹس جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ "جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان ریپ کرنے والوں کو سرِ عام سزائیں دیں تو اسی وقت یہی جو آج عورت کے حق کی بات کررہے ہیں وہ انسانی حقوق درمیان میں لے آتے ہیں"۔

XS
SM
MD
LG