پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لڑکے اور لڑکی کو مبینہ طور پر جنسی ہراساں کیے جانے کے کیس میں لڑکی کی طرف سے عدالت میں ملزمان کو پہچاننے سے انکار کے بعد حکومت نے خود اس کیس کی پیروی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
بدھ کو پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ حکومت کا اولین فرض ہے، ریاست ہر صورت ان کیسز کی پیروی کر کے ملزمان کو سخت سزائیں دلوائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بھیانک جرائم میں ملوث عناصر اعتدال پسند معاشرے اور انصاف کے نظام کے لیے چیلنج ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کیس کی پیروی سے متعلق اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پیروی کا فیصلہ متاثرہ لڑکی کے ملزمان کو نہ پہچاننے کے تناظر میں کیا۔ ناقابلِ تردید ویڈیو اور فارنزک شواہد ریکارڈ پر موجود ہیں۔ خواتین کو ہراساں اور بے لباس کرنے والوں کو قانون کا سامنا کرنا ہو گا۔
اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں پیش آئے واقعے کے کیس کی 11 جنوری کی سماعت میں متاثرہ لڑکی کی جانب سے عدالت میں اسٹامپ پیپر جمع کرایا گیا۔
متاثرہ لڑکی نے عدالت میں بیان دیا کہ پولیس نے یہ سارا معاملہ خود بنایا ہے، میں نے بیان حلفی کسی کے دباؤ میں آ کرنہیں دیا، میں نے کسی بھی ملزم کو نہ شناخت کیا اور نہ ہی کسی پیپر پر دستخط کیے۔
متاثرہ لڑکی کا کہنا تھا کہ پولیس اس کیس میں ان سے مختلف کاغذات پر دستخط اور انگوٹھوں کے نشان لگواتی رہی لیکن گرفتار ملزمان ان کے ملزم نہیں ہیں۔
سوشل میڈیا پر ردِعمل
اس صورتِ حال کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستان میں نظامِ انصاف پر ایک بار پھر بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جس میں متاثرہ لڑکی کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔
اس کیس میں دباؤ کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر رقم کے عوض ڈیل کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے متاثرہ لڑکی اور لڑکے سے رابطہ کے لیے کوشش کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔
'کلائنٹس نے اب فون اٹینڈ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے'
اس کیس میں ملزمان کے سابق وکیل حسن جاوید شورش نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو دونوں گواہان کے وکیل کے بیان ریکارڈ ہونے تھے۔ پیر کی شام تک ہم ان سے رابطہ میں تھے لیکن منگل کی صبح میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، میرا فون اٹینڈ نہیں کیا گیا اور بعد میں پھر فون ہی بند ہو گئے۔ شام کو دونوں نئے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔
حسن جاوید نے کہا کہ آخری دن تک ہمیں یہ محسوس نہیں ہوا کہ شاید ان کی کوئی ڈیل ہو رہی ہے یا کوئی ایسا مسئلہ ہے۔
حسن جاوید نے کہا کہ میری اس میں بطور پیشہ ور وکیل ذمہ داری محدود ہے، مجھے جہاں تک ذمہ داری دی گئی میں نے اس میں کام کیا۔ لیکن اب وکیل کی تبدیلی کے بعد ان کے اگلے وکیل اس بارے میں بات کر سکتے ہیں لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ عدالت اس بارے میں انصاف کرے گی۔
کیا متاثرہ لڑکی کے بیان کا ملزمان کو فائدہ ہو گا؟
وکلا کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاتون جو اس کیس میں سب سے اہم گواہ تھی لیکن مدعی نہیں تھی۔ اس کیس میں ریاست پہلے ہی خود مدعی تھی۔ لیکن اس کیس میں خاتون کے منحرف ہونے سے کیس ختم نہیں ہوا لیکن کمزور ضرور ہوا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر وکیل زبیر گجر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب سرکاری وکیل اس بارے میں خاتون پر جرح کرے گا کہ انہوں نے پہلے یہ بیان دیا تھا اور اب یہ بیان دے رہی ہیں۔ اگر وہ اس بیان کے دوران ثابت کر لیں کہ خاتون کو دباؤ میں لایا گیا یا پھر کوئی لالچ دیا گیا تو اس کیس میں ملزم کو سزا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ خاتون کے انکار کے بعد یہاں ویڈیو شواہد بھی موجود ہیں اور ان ویڈیوز کے فرانزک کے بعد یہ درست ثابت ہو چکی ہیں۔ لیکن خاتون کے منحرف ہونے کے بعد ایک شک پیدا کیا جا چکا ہے جس کے بعد اس کیس میں ملزمان کو زیادہ سے زیادہ سزا نہیں دی جا سکے گی۔
اُن کے بقول سرکاری وکیل کو کوشش کرنا ہو گی کہ وہ یہ ثابت کرے کہ خاتون نے کسی دباؤ یا لالچ کے تحت اپنا بیان بدلا ہے۔
خاتون وکیل ہما جمیل بابر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ اس معاملے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ خواتین پر تشدد اور اُن کے ساتھ زیادتی کا معاملہ ہے۔ اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ لہذٰا اسے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ بدنصیبی ہے کہ خاتون نے پہلے ملزم کو جیل میں شناخت کیا، اس بارے میں مکمل بیانات دیے اور اب نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گئی ہیں۔
'مدعیوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے'
خواتین کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی خاتون سماجی کارکن فرزانہ باری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی متاثرہ خاتون عدالت میں اپنا بیان بدل رہی ہے تو لازمی طور پر اس کی کوئی وجہ ہو گی۔
اُن کے بقول عمومی طور پر اس کی وجہ ان پر دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بیان سے منحرف ہوتی ہیں۔ لہذٰا ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگر کسی معاملے میں ملزمان بااثر ہوں تو ریاست ان متاثرین کو تحفظ فراہم کرے۔
اس کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی، ریاست، پولیس، میڈیا سب ان کے ساتھ تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ دباؤ میں آئے، یہ بیان کسی لالچ میں دیا گیا یا خوف کے ذریعے، اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔
کیس کا پس منظر
پاکستان میں گزشتہ برس چھ جولائی کو سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں ایک لڑکی اور لڑکے کو کچھ افراد مل کر ہراساں کر رہے ہیں اور بعد ازاں خاتون کو بے لباس بھی کیا گیا۔
ان ویڈیوز کے سامنے آنے کے بعد پورے ملک میں اس پر بھرپور اجتجاج کیا گیا اور وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اس معاملہ پر نوٹس لیتے ہوئے ایکشن لینے کی ہدایت کی۔
ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے 24 گھنٹوں کے اندر اس کیس میں نامزد مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ابتدائی تفتیش میں ملزم عثمان مرزا نے تسلیم کیا کہ وہ اس واقعے کے وقت نشے میں تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ سب کیا۔ البتہ اس نے جنسی زیادتی کے الزامات سے انکار کیا۔
پولیس نے اس کیس میں ایس ایچ او تھانہ گولڑہ کی طرف سے ایف آئی آر درج کی اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد دونوں متاثرین سامنے آئے جنہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور پولیس کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت بیانات ریکارڈ کروائے۔