امریکی تاریخ میں چھ جنوری کو ایک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب کیپٹل ہل اور دارالحکومت نے ایسے مناظر کا مشاہدہ کیا جو، مبصرین کی نظر میں، جمہوریت کے سفر میں سیاہ باب کے طور پر رقم ہوئے۔ اس دن سے منسلک واقعات کے پیش نظر ناقدین صدر جو بائیڈن پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کرتے ہوئے ووٹنگ کے حقوق پر قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں، کیونکہ، بقول ان کے، جمہوریت ہی تیزی سے ابھرتے ہوئے خطرات کے مقابلے کا واحد مؤثر طریقہ ہے۔
اس وقت یہ نظر آتا ہے کہ صدر بائیڈن کی توجہ نمایاں طور پر دکھائی دینے والی امریکیوں کی فوری ضروریات یعنی کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے اور معیشت کی بحالی کے مسائل اور نسبتاً کم اہم معاملے انتخابات اور حکومت پر اعتماد کے توازن قائم رکھنے پر مرکوز ہے۔
وائٹ ہاؤس کے معاونین نے کہا ہے کہ صدر 6 جنوری کو جمہوریت کی اہمیت پر خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس میں ووٹنگ کے حقوق پر بات نہیں ہو گی، لیکن وہ جلد ہی اس موضوع پر ایک اور خطاب کریں گے۔
ساؤتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونیورسٹی میں اپنے حالیہ خطاب میں، ووٹنگ کے حقوق پر صدر بائیڈن کی گفتگو اس بارے میں فوری قانون سازی کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
صدر کا کہنا تھا کہ"میں نے ووٹ دینے کے حق پر بے رحم حملے جیسی کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔" ان کا اشارہ بعض ریاستوں میں ووٹنگ کے عمل پر ہونے والی قانون سازی کی طرف تھا۔
بائیڈن نے اپنے خطاب میں مزید کہا، "ووٹر کو دبانے اور انتخاب کو سبوتاژ کرنے کا یہ نیا مذموم امتزاج، غیر امریکی ہے، غیر جمہوری ہے، اور افسوس کی بات یہ ہے کہ تعمیر نو کے بعد سے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔"
بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیوان بھی کہہ چکے ہیں کہ ''کیپٹل ہل میں ہونے والے ہنگامے نے امریکہ کے بارے میں بہت سے ممالک کے نقطہ نظر کو تبدیل کر دیا ہے''۔
سلیوان نے حال ہی میں کونسل آن فارن ریلیشنز میں کہا تھا کہ "6 جنوری نے امریکہ کے بارے میں باقی دنیا کے نقطہ نظر پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اتحادی اسے تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امریکی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں، جب کہ مخالفین یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم اس کا فائدہ کیسے اٹھا سکتے ہیں؟"
اس کے برعکس متعدد ریاستوں میں ری پبلیکنز مستقبل کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے مقامی انتخابی عہدوں پر اپنے ہمدرد لیڈورں کو تعینات کر رہے ہیں اور انتخابی دفتروں کے لیے کئی ایسے افراد کی حمایت کر رہے ہیں، جنہوں نے، مبینہ طور پر، ہنگامہ آرائی میں حصہ لیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے حکام کا اصرار ہے کہ 6 جنوری کے فسادات سے منسلک تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بڑھتی ہوئی مہم کے بارے میں بائیڈن کی نسبتاً نرمی کو ان کی کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ صدر کا خیال ہے کہ انتخابی نتائج سے متعلق ٹرمپ کا انکار اور مقامی سطح پر جنم لینے والی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ ملک کے باقی حصوں اور دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ، بقول ان کے، حکومت اپنا کام کر سکتی ہے۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ موسم خزاں میں کہا تھا کہ "میں جانتا ہوں کہ ترقی تیزی سے نہیں آتی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ حکومت کرنے کا عمل مایوس کن اور بعض اوقات پریشان کن ہوتا ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ہم دباؤ برقرار رکھیں، ہم کبھی ہمت نہ ہاریں، اور ہم یقین پر مضبوطی سے قائم رہیں۔"
بائیڈن کے خیال میں، ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بہت سے لوگوں نے ٹرمپ ازم کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا۔ اس کے بجائے، بقول صدر بائیڈن، ٹرمپ نے اپنا اتحاد قائم کرنے کے لیے ملک کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظاموں کے بارے میں پائے جانے والی بے اطمینانی کا فائدہ اٹھایا۔
صدر بائیڈن نے اپنے پہلے سال کے قومی ایجنڈے میں ان چیزوں کو اولیت دی جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ بے چینی کی بنیادی وجوہات ہیں، یعنی متزلزل معیشت اور بڑے پیمانے پر جاری عالمگیر وبا، جس سے انہیں یہ ثابت کرنے میں مدد مل سکے کہ حکومت مؤثر طریقے سے کام کر سکتی ہے۔
صدر بائیڈن کو متفکر عالمی راہنماؤں سے، بقول مبصرین، وہی پریشان کن سوالات سننے کو ملے، جن کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انہیں یہ بھی سننا پڑے گا۔ ان کے عمومی سوال یہ تھے کہ کیا امریکہ ٹھیک ہو جائے گا اور امریکہ میں جمہوریت کا کیا ہو گا؟
بتایا جاتا ہے کہ جو بائیڈن نے امریکہ کے اتحادیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ کانگریس کی عمارت پر 6 جنوری کو ہونے والا بلوہ ایک ایسا واقعہ تھا جو شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اور، بقول مبصرین، ''انہوں نے اس شخص کو شکست دی جس نے بار بار 2020 کا الیکشن چوری ہونے کی تہمت لگائی تھی''۔
تاہم، انہوں نے اس حقیقی خطرے پر بات نہیں کی جو کئی ریاستوں میں ری پبلیکنز کی جانب سے علاقائی انتخابی عہدوں پر بلوے کے حامیوں کی تعداد میں اضافے اور وہاں انتخابی قوانین میں تبدیلیوں کے باعث پیدا ہو گیا ہے۔
انہوں نے وفاقی قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کو قومی اداروں کی حفاظت یقینی بنانے اور مواصلاتی نظام اور طریقہ کار میں بہتری لانے کی ہدایت کی ہے، تاکہ، بقول ناقدین، امریکی وفاقی پولیس کو پھر یہ الزام نہ سننا پڑے کہ ہجوم کے حملے کے دوران وفاقی عہدے داروں کے کئی گھنٹوں تک دباؤ میں رکھے جانے کی کچھ ذمہ داری پولیس پر بھی عائد ہوتی ہے۔
امریکہ کے محکمہ انصاف نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ شروع کیا ہے، جس میں 700 سے زیادہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے اور مزید کی تلاش جاری ہے۔
لیکن بہت سے ڈیموکریٹس اور کارکن حق رائے دہی کے حوالے سے فکر مند ہیں کہ 2022 کے الیکشن اور اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔ وہ صدر پر زور دے رہے ہیں کہ وہ رائے دہی کے حق کو ایک اہم ترجیح بنائیں۔
ایوان نے ووٹنگ کے حقوق کے بارے میں دور رس قانون سازی کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن، بقول ناقدین، ایری زونا کے ڈیموکریٹک سینیٹرز کرسٹن سینیما اور ویسٹ ورجینیا کے جو منچن اس میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ بل کی مخالفت کریں گے۔
اس قانون سازی سے امتیازی تاریخ کی حامل ریاستوں میں انتخابی قوانین میں کی جانے والی تبدیلیوں پر محکمہ انصاف کی جانب سے نظر ثانی کا اختیار بحال ہو جائے گا جس میں 1965 کے ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی ایک شق بھی شامل ہے، جسے 2013 میں امریکی سپریم کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔ برینن سینٹر کے مطابق، حال ہی میں 19 ریاستوں نے ووٹ دینے کا عمل مشکل بنانے کے قوانین منظور کیے ہیں۔
جنوبی کیرولائنا میں بائیڈن کی تقریر کے بعد، سینیٹ کے ڈیموکریٹس نے 2022 کے اوائل میں ووٹنگ کے حقوق سے متعلق قانون سازی کی منظوری کے لیے ایک بار پھر زور دیا۔ جب کہ صدر بائیڈن نے اے بی سی نیوز کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ ووٹنگ کے حقوق کی قانون سازی کی منظوری کے لیے اقدامات کریں گے۔
کوینی پیاک کے سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 93 فیصد ڈیموکریٹس نے 6 جنوری کے واقعہ کو حکومت پر حملہ قرار دیا ہے جب کہ صرف 29 فیصد ریپبلکن اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئرز ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق ہر 10 میں سے 4 ریپبلکن کیپٹل ہل پر ہونے والے اس حملے کو یاد کرتے ہیں، جس میں پانچ لوگ مارے گئے تھے، جب کہ ہر 10 میں سے 9 ڈیموکریٹس اسے تشدد کی کارروائی قرار دیتے ہیں۔
6 جنوری کو ایک ایسے موقع پر جب کیپٹل ہل میں ایوان نمائندگان 2020 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار جو بائیڈن کی توثیق کے لیے جمع تھے، اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ حامی ایوان کی عمارت پر ہلہ بولنے کے بعد سیکیورٹی کو درہم برہم کرتے ہوئے ایوان میں گھس گئے تھے۔ ان سے بچنے کے لیے ایوان کے اراکیں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائی تھیں۔
بعد ازاں سیکیورٹی اہل کاروں نے کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد بلوائیوں کو عمارت سے باہر نکالا تھا جس کے بعد صدارتی توثیق کا عمل دوبارہ شروع ہوا۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ تھا کہ 2020 کے انتخاب میں بڑے پیمانے پر جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے، اس لیے وہ اپنی شکست کو تسلیم نہیں کرتے۔
ٹرمپ اپنے ان دعوؤں کے شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے اور مختلف عدالتی فورمز نے ان کے دعوے مسترد کر دیے۔