امریکہ میں فائرنگ کا ایک اور ہلاکت خیز واقعہ ہفتے کو پیش آیا جب ریاست جارجیا میں ایک مسلح شخص نے گولیاں مار کے چار افراد کو قتل کر دیا۔
ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کےمٖضافاتی علاقے میں "میس شوٹنگ" یا فائرنگ میں اجتماعی ہلاکتوں کے واقعے میں اموات امریکہ میں فائرنگ یا اسلحے کے استعمال کے بڑھتے ہوئےواقعات کو ظاہر کرتی ہیں۔
جارجیا میں ہونے والی اموات سے ایک روز قبل ریاست نارتھ ڈکوٹا میں ایک شخص نے ٹریفک حادثے کے مقام پر کام کرنے والے پولیس افسران اور آگ بجھانے والے عملے پر فائرنگ کر دی تھی اس دوران فائرنگ کی زد میں آکر ایک پولیس افسر ہلاک ہو گیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق امریکہ بھر میں رواں برس فائرنگ سے ہلاکت خیز واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ قبل ازیں 2006 کے بعد رواں برس کے ابتدائی چھ ماہ فائرنگ سے اموات یا ہلاکت خیز واقعات کے لیے مہلک ترین رہے ہیں۔
یکم جنوری سے 30 جون تک امریکہ بھر میں فائرنگ یا مسلح حملوں کے 28 بڑے واقعات ہوئے ہیں جن میں صرف ایک واقعہ ایسا تھا جس میں بندوق استعمال نہیں ہوئی تھی۔ یوں ان واقعات سے کے سبب مرنے والوں کی تعداد میں لگ بھگ ہر ہفتے اضافہ ہوا ہے۔
سال 2023 کے ابتدائی چھ ماہ کے 181 دنوں میں 28 واقعات میں 140 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔
ریاست ٹینیسی کے دارالحکومت نیش ول سے تعلق رکھنے والے ایک شہری برینٹ لیدرووڈ کے بچے اس پرائیویٹ اسکول میں زیرِ تعلیم تھے جہاں مارچ میں ایک سابق طالب علم نے فائرنگ کرکے تین طلبہ اور تین دیگر افراد کو قتل کیا تھا۔ برینٹ لیدرووڈ ان اعداد و شمار کو ایک خوفناک اضافہ قرار دیتے ہیں۔
لیدر ووڈ کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ ان کی ریاست میں اسلحے کے بارے میں قوانین کو سخت نہیں کیا گیا۔
ان کا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے اسلحہ چھیننے کے لیے کچھ کیا جانا چاہیے جو پر تشدد ہو سکتے ہیں۔
امریکہ میں بڑے پیمانے پر یا اجتماعی ہلاکت خیز واقعات کی تعریف ایک ایسے واقعے کے طور پر کی جاتی ہے جب 24 گھنٹے کی مدت کے اندر حملہ آور سمیت چار یا زیادہ لوگ مارے جاتے ہیں۔
امریکہ کے خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ اور اخبار ’یو ایس اے ٹو ڈے‘ کے اشتراک سے ’نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی‘ نے اعداد و شمار جمع کیے ہیں ان اعداد و شمار میں 2006 کے بعد سے شروع ہونے والے بڑے پیمانے پر تشدد واقعات کا پتا چلتا ہے۔
سال 2023 میں فائرنگ سے اموات کے ہلاکت خیز واقعات 2022 کے 27 قتل واقعات کے ریکارڈ کوپیچھے چھوڑ دیا ہے۔
نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے کرمنالوجی کے پروفیسر جیمز ایلن فاکس اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے لگ بھگ پانچ برس پہلے اعداد و شمار کی نگرانی شروع کی تھی، اس وقت اس طرح کے ریکارڈ کا تصور بھی نہیں تھا ۔
’’ہم کہتے تھے کہ سال میں دو سے تین درجن واقعات ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نصف سال میں 28 واقعات ہوئے ہیں ۔ یہ حیران کن اعداد و شمار ہے۔‘‘
ماہرین امریکہ میں اسلحے کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ خون ریزی میں اضافے کی ایک وجہ آبادی میں اضافے کو قرار دیتے ہیں۔
جیمز فاکس کہتے ہیں کہ ہمیں اسے اس تناظر میں بھی پرکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق بڑے پیمانے پر ہونے والے پر تشدد واقعات اکثر اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، چاہے قوانین میں اصلاحات کی کوشش ہمیشہ کامیاب نہ ہو۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارےایسوسی ایٹڈ پریس سے مواد لیا گیا ہے۔