پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا حق ادا نہیں کر رہا اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔
خواجہ آصف نے ہفتے کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ چار یا پانچ دہائیوں سے 50 سے 60 لاکھ افغان باشندوں کو پاکستان میں تمام تر حقوق کے ساتھ پناہ میسر ہے لیکن اس کے برعکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر پناہ گاہیں میسر ہیں۔
خواجہ آصف کا بیان ایسے موقع پر آیا ہے جب گزشتہ روز ہی فوج نے ایک ہفتے کے دوران ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں 12 اہلکاروں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
فوج کی جانب سے جاری بیان میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اس طرح کے حملے ناقابلِ برداشت ہیں جن کی روک تھام کے لیے مؤثر جوابی کارروائی کی جائے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو حاصل آزادی اور محفوظ پناہ گاہوں پر مسلح افواج کو شدید تشویش ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی کہا ہے کہیہ صورتِ حال مزید جاری نہیں رہ سکتی، پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاۓگا۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے ابتدائی ساڑھے چھ ماہ کے دوان ملک بھر میں ہونے والے خودکش حملوں اور دیگر کارروائیوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 400 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان فوج کے لگ بھگ 120 افسران اور اہلکار چھ ماہ کے عرصے میں ہونے والے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمے داری ٹی ٹی پی یا بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے )نے قبول کی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کی جانب سے پاکستانی فوج کے بیان پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ طالبان رہنما ماضی میں یہ بیانات دیتے رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین ٹی ٹی پی یا دیگر کسی تنظیم کو پاکستان سمیت پڑوسی ملکوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
دوسری جانب پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں کہ طالبان جنگجو ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرتے ہیں۔