افغانستان سے ملحق پاکستان کے سابق قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے 1980ء کی دہائی میں فرقہ وارانہ فسادات کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی لگ بھگ 30 سال بعد اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوگئی ہے۔
برسوں قبل ہونے والے اس تشدد کے نتیجے میں نہ صرف درجنوں افراد مارے گئے تھے بلکہ ایجنسی کے مرکزی قصبوں پاڑہ چنار اور صدہ سے سیکڑوں خاندانوں کو ملک کے دیگر علاقوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔
کرم ایجنسی کے مرکزی قصبے پاڑہ چنار کی زیادہ تر آبادی شیعہ جبکہ صدہ میں اکثریت کا تعلق سنی مکتبِ فکر سے ہے۔
فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار کرم ایجنسی سے مقامی افراد کی نقل مکانی کا آغاز 1986ء میں اس وقت ہوا تھا جب صدہ اور اس کے نواحی علاقوں میں آباد شیعہ افراد پر بعض سنی انتہاپسند تنظیموں کے کارکنوں نے حملے کیے تھے۔
صدہ کے بعد اس فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ پاڑہ چنار اور کرم ایجنسی کے دیگر علاقوں تک پھیل گیا تھا جہاں دونوں مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے ایک دوسرے کے مکانات، کاروبار اور دیگر املاک کو نشانہ بنایا تھا۔
ان فسادات کے باعث پاڑہ چنار اور صدہ سے سیکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔
بعد ازاں 2006ء کے بعد قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات اور حملوں میں اضافے کے بعد پاڑہ چنار اور اس کے گرد و نواح میں شیعہ سنی کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی تھی جس کے باعث پاڑہ چنار میں رہائش پذیر بااثر قبائلی سنی خاندانوں کو بھی علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا۔
علاقے میں کشیدگی بڑھنے کے بعد صدہ کے سنی قبائل نے کئی سال تک پاڑہ چنار کو کوہاٹ اور پشاور سے ملانے والی سڑک پر شیعہ افراد کا سفر بند رکھا تھا جس کے باعث پاڑہ چنار کے رہائشیوں کو ملک کے دیگر علاقوں تک جانے کے لیے یا تو افغانستان سے گزرنا پڑتا تھا یا پھر قومی ایئر لائن کی پرواز کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
نقل مکانی کرنے والے بیشتر شیعہ خاندان صدہ سے پاڑہ چنار اور سنی خانداہ پاڑہ چنار سے صدہ منتقل ہوئے تھے جب کہ کئی خاندانوں کو پشاور، کوہاٹ، ٹل، ہنگو حتی کہ راولپنڈی اسلام آباد اور ایبٹ آباد تک میں پناہ لینا پڑی تھی۔
کرم ایجنسی کے انتظامیہ اور قبائلی رہنماؤں کے مطابق 1980ء کی دہائی کے وسط میں کرم ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے ان خاندانوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔
اب کئی دہائیوں بعد سکیورٹی فورسز کے تعاون سے ایجنسی انتظامیہ نے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا عمل شروع کیا ہے۔
پہلے مرحلے میں صدہ سے بے دخل ہونے والے سات اور پاڑہ چنار سے نقل مکانی کرنے والے 10 شیعہ خاندانوں کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس لایا گیا ہے اور انہیں ان کے آبائی مکانوں میں بسنے کی اجازت دی گئی ہے۔
کرم ایجنسی کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار میں شیعہ برادری کی تنظیم 'انجمنِ حسینیہ' کے ایک رہنما نور محمد نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں بے دخل افراد کی واپسی کے عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس واپسی میں پاکستانی فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاڑہ چنار سے صدہ واپس جانے والوں کا جس طرح استقبال کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔
نور محمد نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع اب ان علاقوں میں پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔
تاہم پاڑہ چنار سے پشاور نقل مکانی کرنے والے سنی قبائل کے ایک رہنما عطااللہ نے واپسی کے اس عمل پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے قبائلی رہنما نے کہا کہ ان کے مطالبات پورے کیے بغیر بعض ایسے لوگوں کی واپسی شروع کردی گئی ہے جن کا ان کے بقول پاڑہ چنار میں گھر ہی نہیں ہے۔
تاہم ایجنسی انتظامیہ کے افسران نے ملک عطااللہ کے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاڑہ چنار اور صدہ واپس لائے جانے والے قبائلی خاندانوں کو ان ہی کے مقفل شدہ گھروں کی چابیاں دے کر ان میں آباد کیا گیا ہے۔
نورمحمد اور ملک عطااللہ دونوں نے انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ کرم ایجنسی کے طول و عرض میں مختلف دیہات کے باشندوں اور قبائلیوں کے مابین جائیدادوں کے تنازعات کے حل کے لیے بھی فوری اقدامات کریں کیوں کہ ان کے بقول بعض اوقات ان تنازعات کو بھی فرقہ وارانہ یا مذہبی نگ دے دیا جاتا ہے جس سے کشیدگی بڑھتی ہے۔