انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے دعویٰ کیا ہے کہ چین میں مساجد کی تعداد کم کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد مذہبی اقلیتوں پر حکومت کے کنٹرول کو مضبوط کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے ولیم یانگ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی جانب سے 22 نومبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کی حکومت "ماسک کانسولیڈیشن" یعنی مسجد کی سخت نگرانی کی مہم کے تحت چین بھر میں مساجد کو منظم طریقے سے منہدم، اُن کے ڈیزائن میں تبدیلی یا بند کر رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ کیسز میں مقامی انتظامیہ نے اسلامی فنِ تعمیر جیسے گنبد، میناروں یا وضو خانوں جیسے انفرااسٹرکچر کو ختم کردیا۔
ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مساجد بند کرنے کی مہم کا دائرہ کار سنکیانگ سے بھی آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
چین پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور اسی خطے میں مسلم اقلیت پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپس کے مطابق چین نے تقریباً 10 لاکھ ایغور مسلمانوں اور دیگر کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے افراد کو حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن بیجنگ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کیمپس کو تربیتی مراکز کے طور پر استعمال کرنے کے دعوے کرتا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ عوامی دستاویزات، سیٹلائٹ تصاویر اور عینی شاہدین پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی نینگشیا ریجن سمیت گانسو صوبے میں مساجد کو بند کیا جا رہا ہے، جہاں مسلمانوں کی بڑی آبادی موجود ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کی چین کی قائم مقام ڈائریکٹر مایا وانگ نے وی او اے کو بتایا کہ چین کی حکومت اپنے دعوے کے مطابق مساجد کی "سخت نگرانی" ہی نہیں کر رہی بلکہ بہت سی مساجد کو بند کر رہی ہے۔
ان کے بقول چین میں مساجد کو مسمار کرنا یا کسی اور مقصد میں استعمال کرنا چین میں اسلام کی موجودگی کو کم کرنے اور مذہب میں لوگوں کی شرکت کو روکنے کی بیجنگ کی کوششوں کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف مساجد کی ظاہری تبدیلیوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی آزادانہ طور پر اسلام پر عمل کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے کا ایک اہم مقصد ہے۔
چین کا مؤقف
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کا اس رپورٹ پر کہنا ہے کہ "بیجنگ حکومت قانون کے مطابق شہریوں کے مذہبی عقیدے کی آزادی کا تحفظ کرتی ہے۔"
سفارت خانے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ "مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان مذہبی عقائد، اصولوں اور روایتی رسوم و رواج کے مطابق مساجد اور گھروں میں اپنے عقیدے پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔"
ان کے بقول متعلقہ فریقوں کو حقائق کا احترام کرنا چاہیے۔ تعصب اور بے بنیاد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عمل کو روکنا چاہیے۔
ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ"مسجد کانسولڈیشن" کا پہلا حوالہ اپریل 2018 کی ایک اندرونی دستاویز میں سامنے آیا جسے "سنکیانگ پیپرز" کے نام سے مشہور دستاویزات کے ایک حصے کے طور پر میڈیا کو لیک کیا گیا تھا۔
اس فائل میں ملک بھر کی ریاستی ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی کہ "اسلامی مذہبی مقامات کی تعمیر، تزئین و آرائش اور توسیع کے معیاری انتظام کو مضبوط بنائیں۔" ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا کہ "(مساجد کی) مجموعی تعداد کو کم کرنے کے لیے نئے تعمیر شدہ اسلامی مقامات نہیں ہونے چاہئیں۔"
آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیوز اور تصاویر اور گروپ کے محققین کی جانب سے تصدیق شدہ سیٹلائٹ فوٹیج کے مطابق 2019 سے 2021 کے درمیان نینگشیا خطے میں حکام نے تمام سات مساجد کے گنبد اور میناروں کو گرا دیا اور ان میں سے تین کی مرکزی عمارت کو مسمار کر دیا۔
گروپ کی جانب سے حاصل کی گئی ویڈیوز کے مطابق اس واقعے کے علاوہ ایک مسجد کے وضو خانے کو بھی اندر سے نقصان پہنچایا گیا۔
البتہ ان دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
"ماسک کانسولیڈیشن" کی پالیسی کا حوالہ مارچ 2018 کی ایک دستاویز میں بھی دیا گیا تھا جو نینگشیا کے دارالحکومت ین چوان کی حکومت نے جاری کیا تھا۔ اس دستاویز کے مطابق حکومت "مذہبی مقامات کی تعداد اور پیمانے پر سختی سے کنٹرول" کرنا چاہتی تھی اور مساجد سے "چینی فنِ تعمیر کے انداز" کو اپنانے کا مطالبہ کرتی تھی۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔
فورم