’مرکزِ ثقل‘ کی لہروں کے بارے میں البرٹ آئنسٹائن کی دلچسپ ترین پیش گوئی ’خلا‘ اور ’وقت‘ کے انوکھےپن سے تعلق رکھتی ہے، جب کہ کششِ ثقل کا نظریہ مبہم، لیکن تسلیم شدہ عنصر ہے۔
لگتا یوں ہے کہ ’کال ٹیک‘، ’ایم آئی ٹی‘، اور ’لیگو سائنٹیفک کولیبوریشن‘ سے تعلق رکھنے والے سائنس داں بالآخر اِسے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس بڑے کام مین صرف ایک صدی کا عرصہ لگا۔
تحقیق کاروں نے جمعرات کے روز اس دریافت کو کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی موسیقی اور اصل زندگی میں اِسے سننے کے مترادف قرار دیا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے فلکیات کے مطالعے سے متعلق ماہر، زیبکوس مارکا کے بقول، ’’اس وقت تک، ہماری آنکھیں افق پر لگی ہوئی تھیں، جب کہ ہم موسیقی کے اِس راز سے واقف نہیں تھے‘‘۔
البرٹ آئنسٹائن نے کشش ثقل کی لہروں کے بارے میں اپنا نظرئے اضافیت 100 برس قبل پیش کیا تھا۔ تب سے سائنس داں اُن پر غور کرتے چلے آئے ہیں۔
کشش ثقل سے متعلق عام سوال و جواب
کشش ثقل کی لہروں کے بارے میں بات کرنا آسان، لیکن اِنہیں سمجھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ سوچئیے کیا ہوگا اگر ایک پہاڑ کو تالاب میں پھینک دیا جائے۔ جب یہ پہاڑ کھائی میں گرے گا تو جہاں یہ پہلے ٹکرائے گا اُس مقام سے چھینٹیں دور دور جائیں گی۔ اب آپ تصور کجیئے کہ خلا اور وقت اس تالاب کی سطح کی مانند ہو، تو کششِ ثقل کی لہریں دراصل چھینٹے ہوں گے۔ بیان آسان ہوگیا؟
یقیناً، لیکن وہ کرتے کیا ہیں؟ ٹھیک ہے، عام زبان میں یہ خلا اور وقت کے پھیلنے اور سکڑنے کا نام ہے، جب خلا کے کسی نکتے سے اِن کا گزر ہوتا ہو۔
ٹھیک ہے۔ لیکن، آپ اور ہم جو اِس ننھی سی نیلی گیند پر رہتے ہیں، اُن کے لیے اس کا کیا مطلب ہوا؟ زیادہ نہیں، بس ہر بار جب کششِ ثقل کی لہر زمین سے گزرتی ہے، اِس لہر سے ہمارا کرہٴ ارض پھیلتا یا سکڑتا ہے۔
آئنسٹائن نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ پھیلاؤ اور تنگی ایسی ہونی چاہیئے جس کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اور، جمعرات کو ہونے والا اعلان یہی کچھ ہے۔
سائنس دانوں نے اس کا کھوج کیسے لگایا؟
کششِ ثقل کی لہروں کے بارے میں یہ عظیم سائنسی مشاہداتی آلہ ’لیگو‘ (لیز انٹرفرمومیٹر گراویٹیشنل ویو آبزرویٹری) نے دریافت کیا ہے۔ اِس کا کام کششِ ثقل کی لہروں کو دریافت کرنا تھا، اور یہ ادارہ سنہ 2002 سے اِسی کام پر مامور تھا۔
’لیگو‘ ارب ڈالر کا منصوبہ تھا جس کی ریاستِ واشنگٹن اور لوزیانا میں دو ’ایل‘ کی رح کی تجربہ گاہیں قائم ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے 3000 سے زائد کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اور اُن کا اتنی دور تعمیر کیا جانا بغیر سبب کے نہیں تھا۔ یہ فاصلہ اتنا دور ہےکہ اُن تک پہنچنے والی اطلاعات کا موازنہ کیا جاسکے اور پیمائش کے لیے مثلثوں میں تقسیم کیا جاسکے، تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جائے آیا یہ لہر آ کہاں سے رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ دریافت اتنی خاص ہے۔
برسہا برس تک، لیگو، کال ٹیک اور ایم آئی ٹی کے سائنس داں دو ’بلیک ہولس‘ کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں، جو ایک دوسرے کے گِرد گھوم رہے تھے، جو قریب سے قریب تر آتے گئے۔ جب وہ ایک دوسرے میں ضم ہوئے، تو سائنس دانوں نے پیش گوئی کی کہ ہونے والا دھماکہ طاقت ور کششِ ثقل کی لہریں پیدا کردے گا۔ اور یہی وہ لہریں تھیں جس کا ’لیگو‘ نے مشاہدہ کیا۔ وہ بالکل اُسی وقت نمودار ہوئیں جیسا کہ سائنس دانوں نے پیش گوئی کی تھی، اور دونوں تجربہ گاہوں نے نشاندہی کی کہ یہ لہریں دور واقع ’بلیک ہولس‘ میں ہونے والے ٹکراؤ سے پیدا ہوئی ہیں۔
تو پھر، بڑی بات کیا ہے؟
سائنس دانوں نے یہ حساب پہلے اُس وقت کیا تھا جب 1970ء کی دہائی میں کششِ ثقل کی لہریں پیدا ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ لیکن، اِن لہروں کو دیکھا نہیں گیا تھا۔
پنسلوانیہ اسٹیٹ کے طبیعیات کے ماہر، ابھے اشٹکر دریافت کرنے والی اس ٹیم کا حصہ تھے۔ بقول اُن کے، ’’اصل میں یہ گیلیلو کی جانب سے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اجسامِ فلکی یعنی سیاروں کا مشاہدہ کرنے کے معاملے سے موازنے کا معاملہ ہے۔ اس سے سمجھ بوجھ بڑھی اور کائنات کے سماوی مظاہر سے ڈرامائی طور پر پردہ اٹھ گیا تھا‘‘۔