رسائی کے لنکس

ترک حکومت زیر حراست افراد پر تشدد بند کروائے: رپورٹ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

رپورٹ میں عائد کیے گئے الزامات میں کہا گیا کہ قیدیوں کو انتہائی تکلیف دہ حالت میں رکھا جاتا ہے، مار پیٹ کی جاتی ہے، انھیں سونے نہیں دیا جاتا اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی میں جولائی میں ناکام بغاوت کے بعد جاری ہونے والے نئے ہنگامی حکمنامے کو زیر حراست افراد پر تشدد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

منگل کو جاری کردہ نئی رپورٹ میں تنظیم نے ان حکمناموں کے تحت پولیس کی طرف سے 13 ایسے مختلف مبینہ واقعات کا تذکرہ کیا۔ ہنگامی حکمناموں سے سرکای حکام کو اپنی کارروائیوں پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے یورپ اور وسطی ایشیا کے ڈائریکٹر ہیو ولیمسن کا کہنا تھا کہ "تشدد کے خلاف حفاظتی انتظامات کو ہٹائے جانے سے ترک حکومت نے موثر طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کھلا اختیار دے دیا ہے کہ زیر حراست افراد پر جس طرح سے چاہیں سلوک کریں اور تشدد کریں۔"

جولائی میں ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک 30 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں اکثریت فوج، شعبہ تعلیم اور انصاف کے اہلکاروں کی ہے۔

تنظیم کی طرف سے رپورٹ میں عائد کیے گئے الزامات میں کہا گیا کہ قیدیوں کو انتہائی تکلیف دہ حالت میں رکھا جاتا ہے، مار پیٹ کی جاتی ہے، انھیں سونے نہیں دیا جاتا اور جنسی تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ایک ایسا کیس بھی سامنے آیا کہ جس میں مبینہ طور پر ایک پولیس اہلکار نے زیر حراست شخص سے کہا ہنگامی حالت کی وجہ سے اگر اسے مار بھی دیا جائے تو کسی کو پرواہ نہیں ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق اہلکار نے کہا کہ "میں صرف یہ کہہ دوں گا کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور میں نے اسے گولی مار دی۔"

ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد سے زیر حراست رہنے والے ایک اور شخص نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ پولیس عہدیدار نے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر نازک اعضا کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔

تنظیم نے ترک حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس حکمنامے کو واپس لے جس کے تحت پولیس کسی بھی شہری کو عدالت میں پیش کیے بغیر 30 دن تک حراست میں رکھ سکتی ہے اور ایسے افراد کو پانچ روز تک کوئی قانونی معاونت بھی حاصل نہیں ہوگی۔

ترکی کی حکومت نے تاحال اس رپورٹ پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG