اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کے روز ان 23 سیاسی کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دیا جن پر پولیس نے دہشتگردی اور ملک سے بغاوت کے قانون کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان افراد کی رہائی کے لئے دائر درخواست ضمانت کے مقدمے میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے کہ عدالت کو ان سے یہ توقع نہیں تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ دہشت گردی کی دفعات کس قانون کے تحت لگائی گئیں، جبکہ عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے میں دہشت گردی کی واضح تعریف بیان کر دی گئی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بغاوت کی دفعات شامل کرنے پر ریمارکس دیے کہ کسی کے محب وطن ہونے پر آپ کیسے شک کر سکتے ہیں؟ عدالت کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر آنکھیں بند کرنے کے بجائے مقدمے کی تہہ تک پہنچا جائے گا۔
واضح رہے کہ یہ سیاسی کارکن جن میں سے اکثر کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے تھا جن میں زیادہ تر طلبہ ہیں، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری پر وفاقی دارلحکومت میں احتجاج کر رہے تھے، جنہیں گزشتہ ہفتے پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اور خود منظور پشتین پر بھی کئی مقدمات میں ملک سے بغاوت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
تاہم، ایسے الزامات پہلے بھی سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والوں پر عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اگر حالیہ تاریخ پر ہی نظر ڈالی جائے تو وزیر اعظم عمران خان سمیت تحریک انصاف کے کئی قائدین کے خلاف بھی ایسے قوانین کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں جو اب بھی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ 2014 کے دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکنوں کے خلاف بھی بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔
اسی طرح، ایم کیو ایم کی قیادت سمیت 100 سے زائد کارکنوں کو بھی دیگر الزامات کے علاوہ بغاوت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ 22 اگست 2016 کو پارٹی کے بانی الطاف حسین کی تقریر سننے جمع ہوئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ سندھ یونیورسٹی کے طلبہ نے جب ہاسٹل میں سہولیات کی عدم فراہمی پر احتجاج کیا تو بھی جامشورو پولیس نے ان طلبہ کے خلاف حکومت سے بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔
پاکستان میں بغاوت سے متعلق قوانین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں بغاوت کے قانون کا احاطہ پاکستان پینل کوڈ کے چھٹے باب میں کیا گیا ہے۔ ریاست کے خلاف جرائم سے متعلق اس باب میں پاکستان کے خلاف جنگ کرنے، ایسی کوشش یا ایسی کوشش کی اعانت کی سزا موت یا جرمانے کے ساتھ عمر قید رکھی گئی۔ حتیٰ کہ، اگلی شق میں ایسی کسی سازش کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دے کر کم از کم دس سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا اس جرم میں بھی عمر قید ہے۔
اسی طرح، اس سے اگلی دفعہ میں پاکستان کے خلاف جنگ کے ارادوں پر بھی قید اور جرمانے کی سزا مقرر ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 اے کے تحت قیام پاکستان کی مذمت کرنے اور اس کی خود مختاری کے خاتمے کی وکالت کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ پاکستانی پرچم کے تقدس کو پامال کرنے، یا اسے غیر قانونی طور پر سرکاری عمارتوں سے اتارنے پر بھی تین سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔
اسی باب میں صدر پاکستان اور صوبوں کے گورنروں کو اپنے اختیارات کے استعمال سے روکنے کی نیت سے حملے، پاکستان کے دوست ملک کے خلاف اعلان جنگ، جنگی قیدیوں کو رضاکارانہ طور پر بھاگنے کی اجازت دینے جیسے سنگین جرائم پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
لیکن، جس اہم نکتے پر آوازیں اٹھ رہی ہیں وہ پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے ہے، جس کے تحت قانونی طور پر قائم کی گئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف بیانیہ، تحریری یا کسی اور طریقے سے نفرت یا توہین کرنے، ان حکومتوں کے خلاف عدم اطمینان ظاہر کرنے اور دشمنی کے کھلے اظہار کو بھی قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس کی سزا عمر قید سے لے کر تین سال قید اور جرمانہ رکھا گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی کارکنوں کے خلاف اکثر اس دفعہ کے تحت مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کی کیا رائے ہے؟
بعض قانونی ماہرین کے خیال میں حکومتی اقدامات پر ناگواری کا اظہار کرنا اور انہیں نفرت، عدم اطمینان اور توہین کے پرچار کے بغیر قانونی طریقے سے تبدیل کرنے کا مطالبہ کرنے سے اس شق کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس میں بھی پراسکیویشن کو ملزمان کی مجرمانہ نیت ثابت کرنا ہوگی۔ لیکن، اکثر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قانون بھی بنیادی طور پر برطانوی نوآبادیاتی دور میں عوام کو ڈرا کر رکھنے اور کنٹرول کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، جس کے تحت قید و بند کی سزائیں بھی دی جاتی رہیں۔ اس کا اطلاق موجودہ دور میں نہیں ہو سکتا، کیونکہ اب ملک آزاد ہو چکا ہے۔
سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کا کہنا ہے کہ اول تو قانون کی یہ شق فوری طور پر ختم ہونی چاہیے، کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی، جبکہ دویم یہ ہے کہ چونکہ بغاوت ایک انتہائی سنجیدہ جرم ہے اس لئے قانون کی اس شق کے اطلاق سے قبل پولیس کو ضابطہ فوجداری کے تحت سرکاری وکلا یعنی پراسیکیوشن سے اجازت لینا ضروری ہے۔
سرکاری وکیل اس بات کی تشفی کرے گا کہ سرزد ہونے والا جرم واقعی اس کیٹیگری میں آتا بھی ہے یا نہیں اور اس قانون کے نفاذ کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ ان کے مطابق، آئین کے تحت ہر شخص کو آزادی اظہار رائے، اختلاف رائے رکھنے اور معلومات تک رسائی کے حقوق حاصل ہیں۔ اس لئے محض حکومت سے اختلاف پر سزاآئین سے یکسر متصادم ہے۔
ایک اور ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین احمد کی رائے میں اس دفعہ کو ضرورت سے زیادہ غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہے، جس کی آج کل کے زمانے میں کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے خیال میں یہ ایک غیر آئینی قانون ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے ملک کے خلاف اسلحہ اٹھانا تو جرم ہو سکتا ہے، لیکن حکومت کے خلاف بات کرنا، حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار کرنا بغاوت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کیا کہنا ہے؟
انسانی حقوق کے کارکن بھی اس قانون کو آئین میں دی گئی شخصی آزادیوں سے متصادم قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل حارث خلیق کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر بغاوت کا موجودہ قانون نوآبادیاتی دور کے قوانین ہی کی باقیات ہیں۔ ان کے مطابق، ریاست کا ڈھانچہ اور ادارے بھی نوآبادیاتی دور ہی سے وراثت میں ملے۔ اسی لئے شہریوں کو جب تک رعایا سمجھا جاتا رہے گا ایسے قوانین زندہ رہیں گے۔ اور ان قوانین کا اطلاق پہلی بار نہیں ہو رہا، بلکہ جمہوری ادوار میں بھی اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے ایسے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
حارث خلیق کا کہنا تھا کہ جدید ریاست کے نظرئے کے تحت شہریوں کو ریاست کے فیصلوں پر بولنے کا مکمل حق حاصل ہے، کیونکہ وہ ریاست میں شراکت دار ہیں۔ ریاست سے جڑے معاملات پر اظہار کے لئے قوائد و ضوابط بھی متعلقہ معاشرہ ہی طے کرتا ہے۔ معاشرے میں جمہوری عمل کے ذریعے مختلف مکاتب فکر کے لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں جو پھر ملکر وہاں رہائش پزیر تمام طبقات کے لئے قانون سازی کرتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے بھی دستور اور پارلیمان کا پلیٹ فارم ہی استعمال کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اختلاف رائے کو بغاوت سے تعبیر دینے کے بجائے اظہار رائے سمجھنے کے لئے معاشرے میں بھی شعور اجاگر کرنے اور بہت زیادہ مثبت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، غیر منقسم اور غیر صحت مند سماج کو بدلنے کے لئے طویل جمہوری عمل کا تسلسل اور لوگوں کی رائے کا احترام ضروری ہے۔
بغاوت کے قوانین کا تسلسل تاریخی غلطی ہے: وفاقی وزیر انسانی حقوق
ادھر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں نافذ ایف سی آر کے قوانین ہوں یا بغاوت کے قانون کا اطلاق آزاد اور جمہوری ریاست میں ایک تاریخی غلطی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نوآبادیاتی دور کے ان قوانین کا مقصد یہاں آباد باشندوں کو کنٹرول کرنا اور اپنا غلام بنائے رکھنا تھا۔