پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع اور حزب اختلاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کہتے ہیں کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے اسلام آباد میں جاری دھرنے کے پیچھے کسی قوت کے ہونے کے بارے میں معلوم نہیں تاہم بظاہر اس احتجاج کے پیچھے کوئی پوشیدہ قوت نظر نہیں آ رہی۔
وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ نہ ہمارے پیچھے کوئی ہے، نہ اُن کے پیچھے کوئی ہے، یہ ایک شوشہ چھوڑ کر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے خلاف 'آزادی مارچ' اسلام آباد پہنچنے کے بعد دھرنے کی صورت اختیار کر چکا ہے جسے اپوزیشن کی اکثر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
'وزیر اعظم کے استعفے پر بات نہیں ہو گی'
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔
پرویز خٹک کے بقول یہ غیر جمہوری اور غیر آئینی مطالبہ ہے۔ آئین میں وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار وضع ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے سے کبھی اتفاق نہیں کر سکتے۔ آئین پاکستان اس کی اجازت نہیں دیتا کہ زبردستی استعفی لیا جائے۔ یہ ناممکن سی بات لگتی ہے۔
انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گی جس سے ملک میں افراتفری ہو۔ اس کے لیے وہ رہبر کمیٹی سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
احتجاج کرنے والی جماعتوں کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف معیشت، خارجہ پالیسی پر تجاویز لے کر آئے، صرف یہ کہہ دینا مناسب نہیں کہ حکومت نے کشمیر کا سودا کر دیا ہے۔
'استعفے پر بات نہیں کرنی تو وہ مذاکرات کی ضرورت نہیں'
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے اگر وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے پر بات نہیں کرنی تو وہ مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ جے یو آئی (ف) نے معاہدہ کیا ہے کہ مظاہرین متعین کی گئی جگہ سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی کے نتیجے میں جو قدم اٹھے گا اس کے ذمہ دار مولانا فضل الرحمٰن ہوں گے۔ انہیں ملک میں افرا تفری پھیلانے کا جواب دینا ہوگا۔
'اداروں کے خلاف بیان دے کر حد ہی کر دی'
وفاقی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ادارے ہر جمہوری حکومت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بیورو کریسی، فوج اور انتظامیہ کو حکومت سے الگ نہیں سمجھنا چاہیے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ریاستی اداروں کے خلاف بیان دے کہ حد ہی کر دی۔ جس پر پاک فوج کے ترجمان نے ردعمل دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب آئین کے خلاف ریاستی اداروں پر بات کی جاتی ہے تو اس کا ردعمل بھی آتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افواج پاکستان کے ترجمان نے صاف کہہ دیا ہے کہ جو بھی جمہوری حکومت آتی ہے اسے افواج پاکستان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ کسی کو آئین کی خلاف ورزی یا انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
'مولانا بغاوت چاہتے ہیں، عدالت جائیں گے'
پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن بغاوت چاہتے ہیں۔ ان کے بیانات بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کی جانب سے لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے خلاف حکومت نے عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
عدالتی فیصلے کا حوالے دے کر پرویز خٹک نے کہا کہ حال ہی میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے کہ اگر کوئی لوگوں کو آئین کی خلاف ورزی پر اکسائے یا ہنگامہ آرائی کے لیے تیار کرے۔ تو یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔
حکومتی کمیٹی کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ خود سے کوئی ایکشن لیتے ہوئے مظاہرین پر ہاتھ ڈالے بلکہ معاملے کو عدالت میں لے کر جا رہے ہیں تاکہ عدالت فیصلہ کرسکے۔
'دھرنوں کے نتائج ملک کے لیے اچھے نہیں ہوتے'
حکومتی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی تمام زندگی دھرنوں اور احتجاجی مارچ کرنے میں گزری ہے اور انہوں نے ان کے نتائج بھی دیکھے ہیں۔
ان کے بقول دھرنوں کے نتائج ملک کے لیے اچھے نہیں ہوتے۔
'آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہو چکی'
پرویز خٹک نے بتایا کہ حزب اختلاف کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی وہ ایسا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
وزیر دفاع نے بتایا کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا نوٹیفکیشن پہلے سے ہو چکا ہے۔ اپوزیشن اس حوالے سے خواب خرگوش میں ہے۔