تین مرتبہ پاکستان کے وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف ایک بار پھر وطن واپس آرہے ہیں لیکن آج کے حالات اس وقت سے بہت مختلف ہیں جب وہ ستمبر 2007 اسلام آباد پہنچے تھے۔
اس وقت ملک میں جنرل پرویز مشرف صدر اور آرمی چیف تھے جنہوں نے 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ تقریباً سات سال تک سعودی عرب کے شہر جدہ میں قیام کے بعد نوازشریف کی یہ وطن واپسی کی پہلی کوشش تھی جسےاس وقت کی حکومت نے ناکام بنا دیا اور سابق وزیرِ اعظم کو ایئرپورٹ کی عمارت سے بھی باہر نکلنے نہیں دیا گیا تھا۔
نواز شریف 10 ستمبر 2007 کو لندن سے پاکستان پہنچنے والے تھے لیکن اس سے بہت پہلے ہی حالات خاصے کشیدہ ہوگئے تھے۔ وہ مسلم لیگ(ن) کے لیے مشکل وقت تھا اور اس کے لیے کسی جلسہ جلوس کا تصور بھی محال تھا جس طرح آج تحریکِ انصاف کے لیے ہوچکا ہے۔
میں اس وقت معروف ٹی وی چینل’ جیو نیوز‘ کے لیےرپورٹنگ کرتا تھا جہاں ابصار عالم اسلام آباد میں ہمارے بیورو چیف تھے۔ نواز شریف کی سات سال بعد وطن واپسی کی کوریج ایک بڑا نیوز ایونٹ تھا جس کے لیے کئی دن قبل میٹنگز شروع ہوگئی تھیں۔
میں ہر میٹنگ میں بطور کرائم رپورٹر شریک ہوتا تھا اور اپنے دفتر والوں کو پہلے ہی آگاہ کرچکا تھا کہ راول پنڈی اسلام آباد کے سنگم پر ائیرپورٹ تک جانا ہی بہت مشکل ہوگا کیوں کہ پولیس نے پلان بنایا تھا کہ ایئر پورٹ کی طرف جانے والے تمام راستے بند کردیے جائیں گے۔ میری رائےتھی کہ اس صورتِ حال میں ائیرپورٹ کے باہر سے کوریج کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ نواز شریف کو واپسی پر گرفتار کرنے کی باتیں ہورہی تھیں۔
اب سوال یہ تھا کہ پھر نوازشریف کے جہاز کی کوریج کس طرح ہو؟ اس وقت واٹس ایپ کی سہولت دستیاب نہ تھی اور ڈی ایس این جی وینز بھی موجود نہیں تھیں۔ لائیوکوریج کے لیے آئی پی ٹی استعمال کی جاتی تھی جس میں بڑے بڑے بکسوں کو کسی وین میں رکھ کر کسی جگہ پہنچایا جاتا تھا پھر ایک طویل عمل کے بعد انہیں کیمرے سے منسلک کرکے لائیو کوریج کی جاتی تھی۔
دفتر کے اندر بنے خفیہ پلان کے تحت اس آئی پی ٹی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ انہیں کہا لگایا جائے؟ یہ بہت بڑا سوال تھا کیوں کہ اسلام آباد کے پرانے ائیرپورٹ کے ایک طرف ٹرمینل ا ور دوسری جانب کافی فاصلے پر گھر موجود تھے۔ ان گھروں پر مشتمل کالونی کو کے آر ایل کالونی یا شاہین کمپلیکس کہا جاتا ہے۔
دفتر کے ایک اسٹاف ممبر کا گھر وہاں موجود تھا اور نواز شریف کی آمد سے دو دن پہلے ہی تمام سامان اس کے گھر پہنچا دیا گیا تھا۔ چھت پر کیمرے کے لیے جگہ پہلے ہی دیکھ لی گئی تھی جہاں سے شاٹس تو بن سکتے تھےاور کیمرہ مین چھپ کر کھڑا ہوسکتا تھا۔
ہم تمام رات جاگ کر نواز شریف کی لندن سے روانگی کی اطلاعات پر کان دھرے ہوئے تھے۔ آٹھ گھنٹوں کی فلائٹ کے بعد جب نواز شریف کا طیارہ اسلام آباد اترنے کا وقت ہوا تو ائیرپورٹ کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی جہاں سیکیورٹی کا سخت حصار تھا۔
ہمارا خدشہ تھا کہ سیکیورٹی کے لوگ ہمیں ایئرپورٹ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ائیرپورٹ کے اندر جانے کے لیے چھ سات رپورٹرز کے کراچی کے ٹکٹ بک کروائے گئے تاکہ انہیں اندر جانے سے روکا جائے تو وہ مسافر کے طور پر ایئرپورٹ میں چلے جائیں۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کراچی کی پرواز صبح دس بجے کی تھی اور نوازشریف آٹھ بجے لینڈ کرنے والے تھے۔ شاید ائیرپورٹ سیکیورٹی کو ہماری اس تدبیر کی سمجھ آگئی تھی اس لیے کسی کو اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔
نوازشریف پی آئی اے کے جہاز سے وطن واپس آرہے تھے اور جب بھی صبح کے وقت یہ فلائٹ آتی تھی تو اس دن ائیرپورٹ کی قریبی سڑکوں پر ٹریفک بلاک ہوجایا کرتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس فلائٹ میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے زیادہ تر بزرگ سفر کرتے تھے اور انہیں لینے کے لیے بعض اوقات بسیں بھر کر لائی جاتی تھیں۔
اس دن بھی ایسا ہی رش ہونا چاہیے تھا لیکن صورتِ حال بالکل برعکس تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام آباد ہائی وے پر کئی کلومیٹر دور ہی سے تمام راستے بند کردیے گئے تھے اور فلائٹ پر سوار ہونے لیے لیے کئی مسافر پولیس اور دیگر لوگوں کو کوستے ہوئے پیدل ہی ائیرپورٹ تک پہنچ رہے تھے۔
تمام راستے رکاوٹیں رکھ کر بند کردیے گئے تھےاور کسی کو استقبال کے لیے ائپرپورٹ آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اسلام آباد سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجہ ظفر الحق کی قیادت میں آنے والی ریلی کو پولیس نے اسلام آباد ہی میں زیروپوائنٹ پر منتشر کردیاتھا۔ راول پنڈی میں حنیف عباسی نے چند ساتھیوں کے ساتھ ائیرپورٹ جانے والے راول روڈ پر آنے کی کوشش کی تو چند نعرے لگانے کے بعد ہی انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
نوازشریف کا جہاز اترا تو ہمارے کیمرہ مین نے وہ تاریخی فوٹیج لائیو دکھائی جس میں نوازشریف 777 جہاز میں اسلام آباد اترے۔ تمام انٹرنیشنل نیوز چینلز نے جیو نیوز کی فوٹیج دکھائیْ۔ جہاز اترا اور پھر واپس ٹیکسی کرتا ہوا پارکنگ میں چلا گیا۔جیو پر فوٹیج چلنے کے بعد ائیرپورٹ سیکیورٹی اور رینجرز کی گاڑیاں اس مکان کو تلاش کرتی رہیں جہاں سے یہ فوٹیج بنی تھی لیکن کسی کو اس کا سراغ نہیں ملا۔
دوسری جانب جہاز پارک ہونے کے بعد نوازشریف کو اندر موجود انٹیلی جنس بیورو کے اہلکار انہیں راول لاؤنج میں لائے جہاں ان سے بات چیت ہوتی رہی اور اس دوران وہی جہاز جدہ کی پرواز کے لیے تیار ہوتا رہا۔
کافی دیر مذاکرات کے بعد نوازشریف کو ایک بار پھر جدہ جانے والے جہاز پر سوار کرادیا گیا۔ اس پر مسلم لیگ(ن) ایک بار پھر خاموش ہوکر بیٹھ گئی۔اسی برس نومبر میں نواز شریف اور شہباز شریف ایک ساتھ وطن واپس پہنچے اور دوبارہ ملکی سیاست میں حصہ لینے لگے۔
آج 16 سال بعد ایک بار پھر نواز شریف تقریباً چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد ملک واپس آرہے ہیں لیکن اس بار ان کے واپس آنے پر کوئی قدغن نہیں۔ ضمانت ملنے کے بعد ان کی قانونی رکاوٹیں بھی دور ہوگئی ہیں اور اب وہ اسلام آباد اور پھر لاہور پہنچ کر مینارپاکستان پر جلسہ کریں گے۔
نوازشریف کے لیے پاکستانی سیاست کبھی خوشی کبھی غم کا منظر پیش کرتی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ موجودہ خوشی کے مناظر کیا نواز شریف کے لیے ایسے ہی برقرار رہیں گے یا انھیں اس دریا سے پار اترنے کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہوگا۔
فورم