گزشتہ کئی دنوں سے جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں جانے کے بعد ایک بات سمجھ آگئی تھی کہ عمران خان کے وکلا جتنی مرضی تاخیر کی کوشش کرلیں جج صاحب انہیں ایسا کوئی موقع فراہم نہیں کریں گے اور ایسا ہی ہوا۔
ہفتے کے روز اگرچہ عدالتوں کی چھٹی ہوتی ہے اور ضلع کچہری میں صرف ڈیوٹی مجسٹریٹ موجود ہوتے ہیں جو ہنگامی نوعیت کے کیسز کی سماعت کرتے ہیں۔صبح سویرے عدالت کی طرف نکلے تو رش میں کوئی کمی نہ تھی،البتہ عدالت کے باہر پولیس کی بڑی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ بندوبست بلاوجہ نہیں ہے۔
سیشن عدالت کے داخلی راستے پر پولیس اہلکار سینکڑوں کی تعداد میں تھے، کچھ فاصلے پر رینجرز اہلکار گاڑیوں میں بیٹھے تھے۔ کچہری کے اندر داخل ہوئے تو سامنے کیفے کے باہر سینکڑوں پولیس اہلکار سائے میں بیٹھے تھے۔ کمرہ عدالت تک پہنچے تو ہر طرف خاردار تاروں سے عدالت کو جانے والے راستے بند تھے اور ایک جگہ پر پولیس اہلکار لسٹ دیکھ کر لوگوں کو جانے دے رہے تھے۔
لسٹ میں نام کنفرم کروا کر کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے تو وہاں وکلا صرف دو تین ہی تھے باقی سب پولیس اور حساس اداروں کے اہلکار تھے۔ کچھ دیر بعد سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کا کوئی وکیل کمرۂ عدالت میں نہ تھا البتہ الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز موجود تھے۔ جج ہمایوں دلاور نے سماعت 9 بجے تک مؤخر کردی۔
نو بجے سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کا کوئی بھی وکیل نہ آیا جس پر جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ متعدد بار کیس کال کیا گیا لیکن ملزم کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا ۔ جج نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا امجد پرویز صاحب آپ موجود ہیں آپ ہی کچھ کہہ دیں ۔ جس پر امجد پرویز نے کہا کہ جج صاحب میں کیا کہوں ۔ اس پر جج ہمایوں دلاور نے بے ساختہ کہا "کوئی شعر ہی سنا دیں"۔
اس پر امجد پرویز نے شعر پڑھا:
وہ ملا تو صدیوں کے بعد میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا
شعر کے بعد جج ہمایوں دلاور نے مسکراتے ہوئے واہ کہا اور کہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مزید وقت دے دیتے ہیں اور کیس کی سماعت ساڑھے دس بجےتک ملتوی کردی۔
ساڑھے دس بجے سماعت ہوئی تو پی ٹی آئی کے ایک جونیئر وکیل خالد یوسف آئے اور کہا کہ خواجہ حارث صاحب احتساب عدالت میں مصروف ہیں،جج ہمایوں دلاور نے پوچھا کہ آپ کون ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ میں بیرسٹر گوہر کا جونئیر ہوں۔ سوال ہوا کہ خواجہ صاحب کب تک آئیں گے جس پر وکیل نے کہا کہ جب وہاں سے فارغ ہوں گے تو آجائیں گے۔ اس پر الیکشن کمش
+2ین کے وکیل امجد پرویز بولے کہ وہاں پر کیسز کا وقت ڈھائی بجے کا ہے۔
جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ اگر رات گئے تک خواجہ حارث پیش نہ ہوئے تو پھر کیا ہوگا؟ سیشن عدالت نے ساڑھے 8 بجے خواجہ حارث کو بلایا تھا، پہلی کال پر ملزم نہ آئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں۔ ہمایوں دلاور نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں 12 بجے تک وقفہ کیا جاتا ہے، خواجہ حارث 12 بجےتک پیش نہ ہوئے تو سنے بغیر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
دن بارہ بجے جب دوبارہ سماعت ہوئی تو وہاں پھر کوئی وکیل موجود نہ تھا جس پر ہمایوں دلاور نے صرف ایک جملہ کہا "فیصلہ محفوظ، ساڑھے بارہ بجے سنائیں گے۔" یہ کہہ کر وہ اپنی نشست سے اٹھے اور چلے گئے۔
ساڑھے بارہ کے قریب خواجہ حارث اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرۂ عدالت میں پہنچے اور اپنی ٹیم کے ساتھ کیس کی قابلِ سماعت ہونے اور دیگر نکات پر گفتگو کرتے رہے۔ اس دوران ان کے جونیئر وکیل مختلف درخواستوں کے پرنٹ بھی لے آئے۔ لیکن ساڑھے بارہ بجتے ہی جج ہمایوں دلاور واپس کمرۂ عدالت میں آئے تو خواجہ حارث نے بات کرنے کی کوشش کی لیکن جج نے کہا کہ فیصلہ سنایا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنانا شروع کردیا۔
اگرچہ پی ٹی آئی وکلا کو فیصلے کا پہلے سے ہی اندازہ تھا لیکن مختصر فیصلہ سنتے ہی تمام وکلا کے چہرے پر اداسی چھا گئی اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ جج نے فیصلہ سنایا اور اٹھ کراپنے کمرے میں چلے گئے۔
کمرۂ عدالت سے باہر آکر ہم نے جلدی جلدی اپنے دفتر میں خبر لکھوائی اور اس دوران کمرۂ عدالت کے باہر عمران خان کے خلاف نعرے بازی شروع ہوئی اور ساتھ ہی عمران خان کے حامی وکلا نے بھی نعرے بازی شروع کردی۔ اس سے پہلے کہ کوئی جھگڑا ہوتا پولیس نے منتیں کرکے سب وکلا کو کچہری کے احاطے سے باہر کیا۔
باہر پی ٹی آئی کے حامی بعض وکلا اداس کھڑے تھے۔ ایک وکیل سے بات کی تو بولے "میرا نام نہ لینا پر خان دی ضد اج اینوں اندر لے گئی اے۔"
فورم