بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ہم آہنگی کے تعلقات کی ایک طاقتور علامت کے طور پر قائم کیا گیا اسکول آج سری نگر کی ایک پُرسکون گلی میں خالی اور بوسیدہ دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ صدی کے نصف میں اس مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو پنڈت پرمانند بھٹ کی جانب سے قائم کیے گئے اسکول 'روپا دیوی شاردا پیٹھ' کی خالی عمارت اور اس کے دروازے پر لکھا اسکول کا نام آج گلی میں کھیلنے والے بہتر مستقبل کے لیے پر امید نوجوان کرکٹرز کے ایک پس منظر سے کچھ زیادہ نہیں دکھتا۔
پرمانند بھٹ کی پوتی پروفیسر ویملا دہر کے مطابق سن 1951 میں جب یہ اسکول قائم ہوا تو اُس وقت یہ خطے میں پسماندہ علاقوں کی طالبات کے لیے امید اور بااختیار بنانے کی ایک کرن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
اس درس گاہ کے عروج کے دنوں میں ہندو اور مسلم والدین اس اسکول میں اپنے بچوں کے داخلے کی خواہش کرتے تھے اور انہوں نے ایک وقت میں تقریباً 700 طلباء کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔
اسکول کے پرکشش مقامات میں تدریسی عملے میں کشمیر کے چند بہترین اسکالرز، سنسکرت کے نادر مخطوطات اور کتابوں کی ایک قیمتی لائبریری شامل تھی - اس کے ساتھ ساتھ اسکول میں مختلف زبانوں میں ادب کا ایک وسیع ذخیرہ بھی تھا۔
پھر 1990 کی دہائی میں اسکول پر زوال اس وقت شروع ہوا جب بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کی وجہ سے ہندوؤں اور پنڈت برادری کے تقریباً تمام اراکین کی بڑے پیمانے پر وادی سے ہجرت ہوئی۔ جس سے ہندو طلبہ کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔
آٹھ مئی 1922 کو ایک ہولناک آگ نے عمارت کے ساتھ ساتھ اس کی شاندار لائبریری کو بھی تباہ کر دیا۔
اس کے بعد یہ اسکول چند سالوں تک عارضی کوارٹرز میں اور پھر پرمانند بھٹ کی اولاد کی ہدایت پر ایک نئی تعمیر شدہ ایک منزلہ عمارت میں چلتا رہا۔ لیکن اسکول کبھی بھی اپنی ماضی کی شان بحال نہ کر سکا۔ مالی مسائل نے آخر کار خاندان کو 2020 میں اسے بند کرنے پر مجبور کر دیا ہر چند کہ انہوں نے ایسا اس کو ایک دن دوبارہ کھلنے کی امید کے ساتھ کیا۔
پنڈت پرمانند بھٹ نے یہ اسکو ل 1947 میں اچانک فوت ہونے والی اپنی بیٹی روپا دیوی کی یاد میں قائم کیا تھا۔ وہ اس وقت کی غیر منقسم ریاست جموں و کشمیر کے اکاؤنٹ جنرل کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے تھے اور انہوں نے اسکول کی مالی اعانت کے لیے اپنی پنشن عطیہ کی تھی۔
اسکول کا باقی نام سنسکرت سے آیا ہے، جہاں "شاردا" کا مطلب ہے "سیکھنے کی دیوی" اور "پیٹھ" کا مطلب ہے "سیکھنے کی نشست"۔ شروع میں ادارے کا اصل مقصد سنسکرت، جدید تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے لڑکیوں کو تعلیم دینا تھا۔
تاہم، ابتدائی چیلنجوں کے بعد اسکول عام اسکولنگ کی طرف منتقل ہو گیا ۔ پروفیسر ویملا دہر کی ہدایت پر اسکول میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مخلوط تعلیم متعارف کروا کر خطے کے تعلیمی منظر نامے میں ایک انقلاب سا برپا کردیا۔
اسکول کے 40 سالہ سابق طالب علم اور کامیاب کاروباری شخصیت اعزاز احمد شالہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس درس گاہ نے بہت سے شاندار ڈاکٹروں اور انجینئروں کے مستقبل کو پروان چڑھایا اور اس کی تشکیل کی اور ان کے اندر علم کا جذبہ اور بہترین کارکردگی کا جذبہ پیدا کیا۔
انہوں نے دل دہلا دینے والے اس دن کو یاد کیا جب اسکول شعلوں میں لپٹا ہوا تھا۔ جس سے عملہ اور طلبہ کچھ فاصلے پر بے بس کھڑے تھے۔ اس وقت چھوٹے بچوں کے طور پر وہ محض دیکھ سکتے تھے کہ ان کے سیکھنے اور نشوونما کی جگہ راکھ میں بدل رہی تھی۔
اگرچہ 1992 میں لگنے والی آگ کی وجہ کا سرکاری طور پر کبھی تعین نہیں کیا گیا لیکن اس کا تعلق اس وقت کی عسکریت پسندی سے رہا ہے۔
مصنفہ کھملتا وکھلو نے اپنی کتاب، "اے کشمیری سنچری: پورٹریٹ آف اے سوسائٹی ان فلکس" میں تحریر کیا کہ "جس طرح اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا اور نذر آتش کیا گیا، اسی طرح روپا دیوی شاردا پیٹھ ٹرسٹ کے زیر انتظام اسکول بھی تھا۔
انہوں نے لکھا کہ اسکول کو جلانے کے ساتھ ہی، دنیا کی چند نایاب کتابیں اور مخطوطات پالی، سنسکرت، فارسی، ہندی، اردو اور انگریزی (زبانوں میں) سب دھوئیں میں اُٹھ گئیں۔ کشمیر کا سب سے بڑا خزانہ جہاں زمانوں سے عقلمند اور علم کے متلاشیوں کے خیالات اور الفاظ ذخیرہ تھے، غائب ہو گئے۔ کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
مقامی باشندے نذیر احمد شورا ان لوگوں میں شامل ہیں جواسکول کے نقصان کو شدت سے محسوس کر تے ہیں۔
انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ اس علاقے میں ایک بھی شخص اسکول کو بند دیکھ کر خوش نہیں۔ "ہم چاہتے ہیں کہ بچے اس لاوارث اسکول میں واپس جائیں، خاموشی کی جگہ ایک بار پھر خوشی کی آوازیں اٹھائیں۔"
پروفیسر ویملا دھر اور ان کا خاندان کسی نہ کسی طریقے سے اسکول کو تین عشروں تک چلاتے رہے لیکن تین برس قبل وسائل کی کمی نے انہیں اسکول بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن وہ ابھی تک اس غیر یقینی کیفیت سے دو چار ہیں کہ خاندان کیسے یا کبھی اس اسکول کو دوبارہ کھول سکے گا۔
لیکن پڑوس کے بہت سے بچوں کے لیے یہ اسکول ایک بہتر مستقبل کے راستے کے لیے امید کی کرن بنا ہوا ہے۔
گلی میں کرکٹ کھیلنے والے سات سالہ مقامی لڑکے عادل بھٹ نے کہا "ہم یہاں اپنی کرکٹ کی مہارتوں کی مشق کرتے ہیں، لہذا جب وہ دن آئے گا جب اسکول دوبارہ بیدار ہوگا، ہم دوست بنانے اور ایک ساتھ شاندار میچ کھیلنے کے لیے تیار ہوں گے۔"
فورم