"اپنے ہاتھ مضبوطی سے باندھ لو اور اپنے والد کو زور سے پکڑ لو۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو ناں؟" میں اپنے ساتھ کھڑے شخص کے کاندھے پر سوار دو چھوٹے بچوں سے مخاطب تھی۔
دھکم پیل اور افراتفری کی وجہ سے مجھے خوف تھا کہ وہ دونوں کہیں گر نہ پڑیں اور ہجوم انہیں روند نہ ڈالے۔
خاص طور پر اس چھوٹے بچے کی مجھے زیادہ فکر تھی جو میرے پیچھے کھڑا تھا اور اس نے اپنی ماں کو پکار کر رونا شروع کر دیا تھا۔
ایک خاتون اپنی ایک رشتے دار کے سامنے کھڑی چلا رہی تھی’’دھکے مت دو، خدارا دھکے مت دو، یہ حاملہ ہے۔‘‘ ہٹو بچو کا شور مچاتی یہ عورت اپنی حاملہ رشتے دار کو ہجوم کی زد سے بچانے کی کوشش تو کررہی تھی لیکن یہ ممکن نظر نہیں آ رہا تھا۔
بھیڑ کا ایک ریلہ آیا اور اس زور کا دھکا لگا کہ میرے ساتھ کھڑے شخص کے کاندھے پر سوار بچہ نیچے کی جانب ڈھلک گیا۔ گھبراہٹ میں اس کے باپ نے چیخ و پکار شروع کر دی۔
دوسری جانب شدید گرمی میں دیوار کے ساتھ ایک پریشان حال سفید فام خاتون گود میں بچہ اٹھائے کھڑی تھی۔ وہ بھوکی پیاسی لگ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ نقاہت اس کے چہرے سے عیاں تھی اور لگتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت نڈھال ہوکر گر پڑے گی۔
میرے سامنے کچھ فاصلے پر دو لوگوں میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی تھی۔ ایک شخص نے دھکا دے کر آگے بڑھنے والے شخص کو گھونسا دے مارا تھا اور گھونسا کھانے والا شخص واویلا کر رہا تھا۔
لوگ اسے ’’کوئی بات نہیں، تم ٹھیک ہو‘‘ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ چیخ رہا تھا ’’نہیں میں ٹھیک نہیں ہوں۔’’
اسی دوران وہاں موجود ایک خاتون کو شدید گھبراہٹ ہونے لگی۔ وہ ’’پانی پانی‘‘ پکار رہی تھی۔ کسی نے اس کی طرف پانی کی بوتل اچھال دی۔
میں حیران تھی کہ ایک چھوٹی سی بچی اور دو لڑکے ایئر پورٹ پر لگے ٹرن اسٹل بیریئر پر چڑھنے میں کس طرح کامیاب ہو گئے تھے۔
کسی نے وہاں لگی خاردار تاروں کو دھکیل کر ان بچوں کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنا دی تھی۔ ہر تھوڑی دیر بعد دوسری جانب وہ کسی کو اشارہ کرتے اور پانی کی ایک بوتل اچھلتی ہوئی ان کی جانب آ جاتی تھی جسے وہ اچک لیتے اور ہجوم میں کسی کو ضرورت ہوتی تو پانی کی بوتل اس جانب پھینک دیتے۔
کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں داخل ہونے کی یہ میری تیسری کوشش تھی۔ میری پہلی دو کوششیں، ہزاروں نہیں تو سیکڑوں، ایسے افراد کی بھیڑ کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھیں جو گھبراہٹ کے عالم میں ایئرپورٹ کے بند دروازوں کو عبور کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔
ہزاروں کی تعداد میں افغان شہریوں کے ایئر پورٹ پر جمع ہونے کی وجہ سے سویلین پروازیں عارضی طور پر منسوخ ہو چکی تھیں۔ اس کی وجہ سے طیاروں کی لینڈنگ اور پرواز میں مشکلات کا سامنا تھا۔
پیر کی شام مجھے معلوم ہوا تھا کہ ہوائی اڈے کا عقبی دروازہ غیر ملکی مسافروں کے لیے صبح نو بجے کھولا جائے گا۔ یہ دروازہ ایئرپورٹ کے اس حصے کی طرف کھلتا ہے جس کی سیکیورٹی امریکی فوج کے پاس ہے۔
اگلے روز میں جب کابل کے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہوئی تو میں نے دیکھا کہ شہر میں رفتہ رفتہ زندگی معمول پر آرہی ہے۔ نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل عملہ شہر کی صفائی ستھرائی اور کوڑا اٹھانے میں مصروف تھا۔ مجھے اپنی گاڑی کے سامنے سے چند باوردی ٹریفک پولیس والے بھی گزرتے ہوئے نظر آئے۔
ایک شہری کا کہنا تھا کہ ماضی کا تجربہ یہی رہا ہے جب یہ (طالبان) اقتدار میں آتے ہیں تو سب کچھ خاموشی اور سکون سے چلتا رہتا ہے۔ لیکن جب یہ سنبھل جاتے ہیں تو حالات بدلنے لگتے ہیں۔ اس شہری نے نام ظاہر کرنے سے منع کر دیا۔
دو گھنٹے کی دھکم پیل اور کھینچا تانی سے گزرنے کے بعد بالآخر میں ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اب کابل سے رخصت ہونے کے لیے پرواز کا طویل انتظار شروع ہو گیا تھا۔