بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے ایک افسر نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کا رواں ماہ ہونے والا مجوزہ دورہ پاکستان منسوخ کردیا گیا ہے جب کہ پاکستانی حکام نے اس بارے میں لاعلمی ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو ترقی پذیر مسلم ممالک کی تنظیم 'ڈی۔ایٹ' کے 22 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔
پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے گزشتہ ہفتے بذاتِ خود ڈھاکہ جا کر صدر آصف علی زرداری کی جانب سے سربراہی اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کو پہنچایا تھا۔
تاہم بدھ کو فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' نے بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سید مسعود خندوکر کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد نہیں جارہیں۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' نے بھی بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبار 'دی ڈیلی اسٹار' کے مطابق بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے مشیروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 1971ء میں پیش آنے والے واقعات پر ڈھاکہ سے باضابطہ طور پر معافی مانگنے تک وزیرِاعظم کو اسلام آباد کے دورے سے گریز کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیرِ خارجہ اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب کے درمیان ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات میں بنگلہ دیشی وزیرِ خارجہ نے اپنے ملک کے اس مطالبے کو ایک بار پھر دہرایا تھا کہ پاکستان 1971ء میں ملک کی تقسیم کے وقت بنگالیوں پر کیے جانے والے "مظالم" پر ڈھاکہ سے معافی مانگے۔
پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں بنگلہ دیشی وزیرِ خارجہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ "ان کے ملک کو توقع ہے کہ پاکستان 1971ء میں اپنی افواج کے ہاتھوں بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی پر باضابطہ طور پر معافی مانگے گا"۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات کے حل کی صورت میں ہی بہتر ہوسکتے ہیں جن میں 1971ء کے واقعات پر معافی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
تاہم بنگلہ دیشی وزیر ِ خارجہ کے مطالبے پر پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے ملاقات کے دوران میں موقف اختیار کیا تھا کہ "یہ وقت ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کا ہے"۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان 1974ء کے بعد سے اب تک کئی بار 71ء میں پیش آنے والے واقعات پر اظہارِ افسوس کرچکا ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش نے 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی جس سے قبل اس سرزمین کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔
اس مسلم اکثریتی ملک کے رہنما الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ 1971ء میں ان کی تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے پاکستانی افواج نے مقامی بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی، خواتین کی عصمت دری اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسے جنگی جرائم کا بڑے پیمانے پر ارتکاب کیا تھا۔
دریں اثنا پاکستانی روزنامے 'ایکسپریس ٹربیون' کے مطابق پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں تاحال بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے دورہ پاکستان کی منسوخی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
اخبار کے مطابق نہ تو بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے اب تک ڈھاکہ میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن کو وزیرِاعظم حسینہ واجد کے مجوزہ دورہ پاکستان میں تبدیلی سے متعلق آگاہ کیا ہے اور نہ ہی اسلام آباد میں موجود بنگلہ دیشی ہائی کمیشن نے اس بارےمیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کو مطلع کیا ہے۔
تاہم 'اے ایف پی' نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے آٹھ مسلم ممالک پر مشتمل 'ڈویلپنگ – 8' یا 'ڈی – 8' نامی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اب بنگلہ دیشی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ دیپو مونی کریں گی۔
ترقی پذیر مسلم ممالک کے اس آٹھ رکنی اتحاد کا قیام 1997ء میں عمل میں آیا تھا جس میں پاکستان کے علاوہ ایران، مصر، ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور نائجیریا شامل ہیں۔
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو ترقی پذیر مسلم ممالک کی تنظیم 'ڈی۔ایٹ' کے 22 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔
پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے گزشتہ ہفتے بذاتِ خود ڈھاکہ جا کر صدر آصف علی زرداری کی جانب سے سربراہی اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کو پہنچایا تھا۔
تاہم بدھ کو فرانسیسی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' نے بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل سید مسعود خندوکر کے حوالے سے کہا ہے کہ وزیرِاعظم شیخ حسینہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد نہیں جارہیں۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' نے بھی بنگلہ دیشی وزارتِ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر کے حوالے سے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
ڈھاکہ سے شائع ہونے والے اخبار 'دی ڈیلی اسٹار' کے مطابق بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے مشیروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے 1971ء میں پیش آنے والے واقعات پر ڈھاکہ سے باضابطہ طور پر معافی مانگنے تک وزیرِاعظم کو اسلام آباد کے دورے سے گریز کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پاکستانی وزیرِ خارجہ اور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب کے درمیان ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات میں بنگلہ دیشی وزیرِ خارجہ نے اپنے ملک کے اس مطالبے کو ایک بار پھر دہرایا تھا کہ پاکستان 1971ء میں ملک کی تقسیم کے وقت بنگالیوں پر کیے جانے والے "مظالم" پر ڈھاکہ سے معافی مانگے۔
پاکستانی ہم منصب سے ملاقات میں بنگلہ دیشی وزیرِ خارجہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ "ان کے ملک کو توقع ہے کہ پاکستان 1971ء میں اپنی افواج کے ہاتھوں بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی پر باضابطہ طور پر معافی مانگے گا"۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات کے حل کی صورت میں ہی بہتر ہوسکتے ہیں جن میں 1971ء کے واقعات پر معافی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
تاہم بنگلہ دیشی وزیر ِ خارجہ کے مطالبے پر پاکستان کی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر نے ملاقات کے دوران میں موقف اختیار کیا تھا کہ "یہ وقت ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کا ہے"۔
پاکستانی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان 1974ء کے بعد سے اب تک کئی بار 71ء میں پیش آنے والے واقعات پر اظہارِ افسوس کرچکا ہے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش نے 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان سے آزادی حاصل کی تھی جس سے قبل اس سرزمین کو مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا۔
اس مسلم اکثریتی ملک کے رہنما الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ 1971ء میں ان کی تحریکِ آزادی کو کچلنے کے لیے پاکستانی افواج نے مقامی بنگلہ دیشیوں کی نسل کشی، خواتین کی عصمت دری اور املاک کو نقصان پہنچانے جیسے جنگی جرائم کا بڑے پیمانے پر ارتکاب کیا تھا۔
دریں اثنا پاکستانی روزنامے 'ایکسپریس ٹربیون' کے مطابق پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں تاحال بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم کے دورہ پاکستان کی منسوخی کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
اخبار کے مطابق نہ تو بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے اب تک ڈھاکہ میں واقع پاکستانی ہائی کمیشن کو وزیرِاعظم حسینہ واجد کے مجوزہ دورہ پاکستان میں تبدیلی سے متعلق آگاہ کیا ہے اور نہ ہی اسلام آباد میں موجود بنگلہ دیشی ہائی کمیشن نے اس بارےمیں پاکستانی وزارتِ خارجہ کو مطلع کیا ہے۔
تاہم 'اے ایف پی' نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ دنیا کے آٹھ مسلم ممالک پر مشتمل 'ڈویلپنگ – 8' یا 'ڈی – 8' نامی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اب بنگلہ دیشی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ دیپو مونی کریں گی۔
ترقی پذیر مسلم ممالک کے اس آٹھ رکنی اتحاد کا قیام 1997ء میں عمل میں آیا تھا جس میں پاکستان کے علاوہ ایران، مصر، ترکی، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا اور نائجیریا شامل ہیں۔