وفاقی وزیر برائے ریاستیں اور سرحدی امور نے مطالبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی برادری افغان پناہ گزینوں کی باعزت طریقے سے اپنے وطن واپسی کے لیے کیے گئے اپنے عزم کو پورا کرے۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ تقریباً 30 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں قیام پذیر ہیں، جس کی وجہ سے ملک کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، پاکستان سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں 14 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں۔
لیکن، حکام کے مطابق تقریباً 10 لاکھ کے قریب افغان باشندے ایسے بھی ہیں جو بغیر اندراج کے غیر قانونی طور پر ملک کے مختلف حصوں میں رہ رہے ہیں۔
افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا پروگرام اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین ’یو این ایچ سی آر‘ کی معاونت سے جاری ہے اور گزشتہ سال تقریباً چھ لاکھ افغان باشندے سالوں تک پاکستان میں بطور پناہ گزین مقیم رہنے کے بعد اپنے وطن لوٹ گئے تھے۔
1980ء کی دہائی میں افغانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک میں روسی فوجی مداخلت کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی اور لاکھوں افغان شہریوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔
پاکستان یہ کہتا آیا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں دہائیوں تک ان پناہ گزینوں کی میزبانی سے نہی صرف ملکی وسائل پر بوجھ پڑا ہے، بلکہ اس کے اپنے شہریوں کے معاشی مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے عالمی برادری ’یو این ایچ سی آر‘ کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی پاکستان کی معاونت کرتی آئی تھی۔ لیکن، حالیہ برسوں میں دنیا کے مختلف حصوں، خصوصاً شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والے تنازعات کے باعث لاکھوں افراد کے متاثر ہونے سے یہ معاونت بٹ گئی اور اس میں خاطر خواہ کمی بھی واقع ہوئی۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال ’یو این ایچ سی آر‘ نے رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والوں کے لیے زر معاونت چار سو ڈالر فی کس رکھا تھا جسے اب کم کر کے دو سو ڈالر کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارہ اس کی وجہ فنڈز کی کمی بتاتا ہے۔