رسائی کے لنکس

پاکستان سے بے دخل افغان باشندوں کو صوبہ قندوز اور سر پل میں بسانے کی منصوبہ بندی


پاکستان سے افغان مہاجرین کی اپنے ملک واپسی کا سلسلہ جاری ہے جن کے لیے سرحد پر دونوں جانب کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ البتہ ان کیمپوں میں سہولیات کے فقدان کے سبب لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان سے واپس اپنے وطن لوٹنے والے افغان باشندوں کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت نے طورخم سرحد کے قریب ایک عارضی کیمپ قائم کیا ہے جہاں سے ان لوگوں کو آبائی علاقوں کی جانب روانہ کیا جائے گا۔

طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ اعظم مولوی عبدالسلام حنفی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطح کے وفد نےمنگل کو مہاجرین کے کیمپ میں انتظامات کا جائزہ لیا۔

افغانستان کے سرحدی صوبے ننگرہار کی وزارتِ اطلاعات کےبیان کے مطابق مولوی عبد السلام حنفی کے وفد میں وزیرِ اطلاعات مولوی خیر اللہ خیرخوا، وزیرِ مہاجرین مولوی خلیل الرحمٰن حقانی، نائب وزیرِ خزانہ مولوی عبد الکبیر اور طالبان حکومت کے ترجمان بلال کریمی شامل تھے۔

طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین خلیل الرحمٰن حقانی کے بیان کے مطابق یہ عارضی کیمپ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے تعاون سے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کے قریب قائم کیا گیا ہے جہاں 500 خاندانوں کی رہائش کے انتظامات ہیں۔

خیبر پختونخوا کے علاقے طورخم کے علاوہ بلوچستان میں چمن سے ملحقہ افغانستان کے علاقے اسپن بولدک کے قریب بھی اسی قسم کی ایک خیمہ بستی قائم کی گئی ہے۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں وائس آف امریکہ سے منسلک سینئر صحافی اکرام شنواری کے مطابق پیر کو پاکستان اور ایران سے لگ بھگ سات ہزار افغان باشندے وطن واپس پہنچے ہیں۔ ان لوگوں میں ساڑھے تین ہزار افراد پر مشتمل 530 وہ خاندان بھی شامل ہیں جنہیں حکومتِ پاکستان نے زبردستی واپس بھیجا ہے۔ یہ خاندان چمن کی سرحد سے اسپن بولدک پہنچے ہیں۔

افغان طالبان کی وزارتِ مہاجرین نے فیصلہ کیا ہے کہ وطن واپس آنے والوں کی مرضی کے مطابق انہیں افغانستان کے کسی بھی علاقے میں رہائش فراہم کی جائے گی اور جن لوگوں کی جائیداد وغیرہ نہیں ہے انہیں افغانستان کے شمالی علاقوں بالخصوص تاجکستان سے ملحقہ صوبہ قندوز یا ترکمانستان کے نزدیک صوبہ سرے پل میں بسانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

طالبان کی وزارتِ مہاجرین نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ جن لوگوں کی افغانستان میں جائیداد نہیں، ان خاندانوں کو وطن واپس آنے پر زرعی زمین بھی دی جائے گی۔

افغان مہاجرین کو درپیش مشکلات

افغانستان واپس جانے والے مہاجرین نے طورخم کی سرحدی گزرگاہ کے دونوں جانب سہولیات نہ ہونے اور بہت سی مشکلات کی شکایات کی ہیں ۔

پاکستان سے ننگرہار واپس جانے والے عزیز اللہ نے بتایا کہ طورخم پر پاکستان کے محکموں کا عملہ بہت کم ہے جس کی وجہ سےکلیئرنس کا عمل سست روی کا شکار ہے۔

انہوں نے سرحد پر تعینات اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ تلاشی لینے والے سیکیورٹی اداروں کے اہلکار انہیں معمولی اشیا بشمول روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں رکھنے پر بھی تنگ کرتے ہیں۔

ان کے بقول اسی طرح کی مشکلات انہیں افغانستان کی حدود میں بھی پیش آ رہی ہیں کیوں طالبان کی استعداد کار بہت کم ہے۔

عزیز اللہ کے مطابق طالبان کے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود مہاجرین کیمپوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے واپس آنے والے زیادہ تر لوگ طالبان کے قائم کردہ کیمپوں میں رہنے کے بجائے آبائی علاقوں میں پہنچنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

طالبان کے قائم کردہ کیمپ کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں بجلی اور دیگر سہولیات بھی نہیں ہیں۔ ہر ایک خاندان کو صرف ایک خیمہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کی حدود میں بھی کیمپ موجود

پاکستان کے سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں بھی کیمپ قائم ہے۔ البتہ اس کیمپ یا طورخم کی سرحدی گزرگاہ کے قریب واپس جانے والے مہاجرین کو کسی قسم کی طبی سہولت فراہم نہیں کی جا رہی۔

طورخم میں ایک تجارتی ادارے سے منسلک اسرار خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طبی سہولیات نہ ہونے کے باعث گزشتہ دو دن کے دوران دو نوزائیدہ بچوں کی اموات ہو چکی ہیں۔

پشاور میں مقیم افغان باشندے عزیز الرحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان واپس جانے والوں کی گاڑیاں پیر کو تین مختلف مقامات پر حادثات کا شکار ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال شاہ کاکاخیل اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری عابد مجید نے کہا ہے کہ لنڈی کوتل اور طورخم کے ساتھ ساتھ ہری پور کے عارضی کیمپوں سمیت صوبے بھر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے ریسکیو1122 کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے اور انہیں افغانستان واپس جانے والوں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کی ہدایت کی گئی ہے۔

افغانستان کے معروف سیاسی تجزیہ کار عبد الوحید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی حکومت نے افغان باشندوں کو ایک ایسے وقت میں واپس جانے کا حکم دیا ہے جب ایک طرف شدید سردی کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ تو دوسری طرف زیادہ تر لوگ طالبان کی پالیسی سے بھی نالاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر واپس آنے والے خاندان بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں کیوں کہ طالبان خواتین کی تعلیم کے حصول پر پابندیاں لگا چکے ہیں جب کہ لڑکوں کے لیے بھی معیاری تعلیمی اداروں کی قلت ہے۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی بے دخلی پر طالبان کے نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی نے ایک روز قبل کابل میں تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ اس اقدام سے اسلام آباد امارتِ اسلامی پر سیاسی و معاشی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے حکومتِ پاکستان کے اقدام کو سفارتی تعلقات اور اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG