رسائی کے لنکس

بھارت میں معاشی عدم مساوات، ارب پتی شخصیات کی تعداد میں اضافہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

نئی دہلی کے ایک غیر منافع بخش نجی ادارے 'آکسفیم انڈیا' نے پیر کو جاری اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک کی مجموعی دولت کا 40.5 فی صد حصہ ایک فی صد امیر شخصیات کے ہاتھ میں ہے جب کہ 50 فی صد آبادی کے پاس مجموعی دولت کا صرف ایک فی صد ہے۔

آکسفیم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 2020 میں بھارت میں ارب پتی افراد کی تعداد 102 تھی جو 2021 میں بڑھ کر 142 اور 2022 میں 166 ہو گئی ہے۔اس کے برعکس ملک میں 22 کروڑ 89 لاکھ افراد افلاس کے شکار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک کے 100 امیر افراد کے پاس 54 ہزار ارب سے زائد روپے ہیں جب کہ دس نمایاں امیر ترین لوگوں کے پاس 27 ہزار ارب روپے ہیں۔ سال 2021 کے مقابلے میں ان امیر ترین شخصیات کی دولت میں 32.8 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت جہاں دنیا کی تیز رفتار معیشت ہے وہیں وہ ایسا ملک بھی ہے جہاں عوام کے درمیان معاشی عدم مساوات بہت زیادہ ہے۔

سینئر اقتصادی تجزیہ کار جینتو رائے چودھری کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا روزگار ختم ہو ا۔ اگرچہ بڑے اور درمیانہ درجے کے تاجروں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا لیکن چھوٹے تاجروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔اسی دوران بڑے تاجروں نے وبا کے دوران بھی بہت پیسہ بنایا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں نے کرونا وبا کے اثرات سے لوگوں کو باہر نکالنے کے لیے مارکیٹ میں پیسہ لگایا تھا اور یہ تمام پیسہ شیئر مارکیٹ یا کموڈٹی مارکیٹ میں کاروبار کرتا رہا جس سے اسٹاک مارکیٹ میں کاروباری سرگرمی تیز ہوئی۔

ان کے خیال میں پیسہ مارکیٹ میں آنے کی وجہ سے بڑے تاجروں کی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ گئی اور اس کے بعد امیروں کی دولت میں بھی اضافہ ہوا۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کرونا کی وبا کے بعد کی صورتِ حال نے جہاں امیروں کو اور امیر بنا دیا وہیں غریب اور غریب ہو گئے۔

آکسفیم کی رپورٹ میں معاشی عدم مساوات کی ایک وجہ ٹیکس کے نظام میں موجود خامیوں کو بھی قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امیروں کے مقابلے میں غریب زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ رواں سال غذائی اور غیر غذائی اشیا سے جو ٹیکس حاصل ہوا ہے اس کا 64.3 فی صد غریب اور متوسط طبقے سے جمع کیا گیا ہے۔

'حکومت نے چھوٹی چھوٹی اشیا پر بھی ٹیکس بڑھا دیا'

رپورٹ کے مطابق بھارت میں انکم ٹیکس کی شرح آمدنی پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے تحت بالواسطہ ٹیکس تمام افراد کے لیے یکسا ں ہوتا ہے خواہ ان کی کمائی کچھ بھی ہو۔صارفیت ٹیکس یعنی ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (ویٹ) پر بہت زیادہ انحصار عدم مساوات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس میں غریبوں کو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی شکل میں دینا پڑتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے بعد حکومت نے چھوٹی چھوٹی اشیا جیسے کہ ماچس، موم بتی، دودھ، بسکٹ وغیرہ پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ یہاں تک کہ روٹی پر بھی 18 فی صد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی میں معاشی امور کے پروفیسر ہمانشو کے مطابق "بھار ت جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی مذہب، زبان، ذات برادری اور علاقے کی بنیاد پر عوام بٹے ہوئے ہیں وہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق کا مزید بڑھ جانا انتہائی پریشان کن ہے۔"

بھارت کی تیز رفتار ترقی، 70 فیصد دیہی آبادی ثمرات سے محروم
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:32 0:00

ان کے مطابق ملک کے امیروں نے کرونی کیپٹلزم کے توسط سے ملک کی دولت کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور ان کی دولت مزید بڑھتی جا رہی ہے جس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ تین عشروں کے دوران عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ عشرے میں ارب پتیوں کی دولت میں دس فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹس کا کہنا ہے کہ غریبوں کو صحت کی سہولتیں بہت کم مل رہی ہیں۔ ادویات اور دیگر طبی آلات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھی غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حالاں کہ حکومت نے غریبوں کے لیے متعدد صحت اسکیموں کا اعلان کیا ہے لیکن ان اسکیموں سے اتنے لوگ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے جتنے کی حکومت دعویٰ کرتی ہے۔

حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے) کے تحت 80 کروڑ 35 لاکھ افراد کو ایک سال کے لیے مفت راشن تقسیم کیا جائے گا جب کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی ایک تحقیق کے مطابق حکومت نے کرونا وبا کے دوران اور اس کے بعد چاول اور گیہوں بڑی مقدار میں مفت تقسیم کی جس کی وجہ سے عدم مساوات میں کمی آئی ہے۔

اقتصادی تجزیہ کار جینتو رائے چودھری کا کہنا ہے کہ صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ملکوں میں امیر لوگ حکومت سے ٹیکس میں کمی یا معافی کی درخواست کرتے ہیں، جن کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ اگر ان کی تجارت بڑھے گی تو ملکی معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔

ان کے مطابق بہت سی حکومتیں امیروں کی اس لابنگ کے آگے جھک گئی ہیں اور انہوں نے امیروں پر عائد کیا جانے والا ٹیکس کم کر دیا ہے۔
جینتو رائے چودھری کے خیال میں حکومت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافہ کر دیا ہےجس کی وجہ سے عوام کو زیرِ استعمال اشیا پرپہلے کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس دینا پڑ رہا ہے۔ ان کے خیال میں آکسفیم کی یہ بات بالکل درست ہے کہ غریبوں کو امیروں کے مقابلے میں چھ فی صد زیادہ بالواسطہ ٹیکس دینا پڑ رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG