پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ سندھ کے علاقے سکرنڈ میں گزشتہ ماہ چار شہریوں کی ہلاکت ماورائے عدالت قتل ہے جس کے ذمے داران کو سزا ملنی چاہیے۔
انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سکرنڈ میں ہونے والا سیکیورٹی آپریشن جلد بازی اور بغیر کسی مؤثر حکمتِ عملی کے کیا گیا جس کا نتیجہ عام شہریوں کی ہلاکت اور افراتفری کی صورت میں نکلا۔
کمیشن نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا کہ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران کو چار شہریوں کے قتل اور کئی کو زخمی کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔
واقعہ کیا ہوا تھا؟
خیال رہے کہ 28 ستمبر کو سندھ رینجرز اور پولیس نے ضلع بے نظیر آباد کی تحصیل سکرنڈ کے گاؤں ماڑی جلبانی میں ایک مشترکہ کارروائی کی تھی۔
اس دوران گاؤں والوں کے مطابق مبینہ طور پر رینجرز اہل کاروں کی فائرنگ سے چار شہری ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ لیکن پولیس کا مؤقف اس سے مختلف ہے اور سرکار کی جانب سے واقعے کی درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مارے جانے والے افراد دیہاتیوں ہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور اس دوران بعض رینجرز اہل کاروں کو بھی زخم آئے۔
تاہم ماڑی جلبانی گوٹھ کے مکین یہ مؤقف ماننے کو تیار نہیں اور اس حوالے سے وزیرِ اعلی سندھ کی ہدایت پر قائم ہونے والی تحقیقاتی کمیٹی پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
اہلِ علاقہ نے واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا بھی مطالبہ کر رکھا ہے۔ لیکن اس مطالبے پر اب تک حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی اور نہ ہی واقعے میں درج دو الگ مقدمات میں کوئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔
گاؤں والوں نے کمیشن کو کیا بتایا؟
گاؤں کے رہائشیوں نے انسانی حقوق کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے 60 سے 70 اہل کاروں نے آپریشن میں حصہ لیا تھا جن میں سے بعض سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔
پہلے تو گاؤں کے رہائشی سمجھے کہ یہ آپریشن بجلی چوروں کے خلاف ہو رہا ہے لیکن پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گھروں کی تلاشی لینا شروع کردی۔
اس دوران رینجرز اہل کاروں کی دیہاتیوں سے تلخ کلامی ہوئی اور اس پر اہل کاروں کی جانب سے مبینہ طور پر 35 سالہ سجاول نامی شخص پر فائرنگ کی گئی۔
فائرنگ کے نتیجے میں مزید لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ سجاول کو بچانے کے لیے 30 سالہ ناظم دین سمیت مزید کئی لوگ سامنے آئے اور اُن پر بھی مبینہ طور پر اہل کاروں کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
فائرنگ سے ناظم دین کا بھائی 24 سالہ امام بخش دین اور میہڑ نامی دو افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے اور کئی افراد مزید زخمی بھی ہوئے جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔
دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن نے ناظم دین اور امام دین کی والدہ جنت جلبانی سے بھی ملاقات کی۔
اُنہوں نے بتایا کہ معاملہ اس وقت بگڑا جب امام دین اور ناظم کو سیکیورٹی اہل کاروں نے گھر کی تلاشی کے دوران بغیر کسی وجہ کے حراست میں لے لیا۔
رینجرز اہل کاروں کے ہمراہ زیرِ حراست طالبِ علم کون تھا؟
گاؤں والوں نے بتایا کہ رینجرز اہل کاروں کے ساتھ 24 سالہ لیاقت جلبانی نامی ایک طالب علم بھی موجود تھا جو بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں زیر تعلیم ہے۔
انہوں نے اس کا چہرہ کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ ضلع بے نظیر آباد کے ایس ایس پی حیدر رضا نے کمیشن کے نمائندوں کو بتایا کہ رینجرز اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیز نے ان سے آپریشن سے قبل رابطہ کیا تھا۔
ایس ایس پی کے مطابق ایجینسیز نے بتایا کہ اُن کے پاس ایسی معتبر معلومات موجود ہیں جن کے تحت علاقے میں ایسے شرپسند موجود ہیں جو صوبے میں جشن عید میلاد النبی کے موقع پر شرانگیز کارروائی کر سکتے ہیں۔
رینجرز اور وزیرِ داخلہ سندھ کا انسانی حقوق کمیشن کو مؤقف دینے سے گریز
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس معاملے پر رینجرز اور محکمہ داخلہ کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے ترجمان سندھ رینجرز میجر خاور عباسی اور نگراں وزیرِ داخلہ حارث نواز سے ملاقات کی کوششیں کی گئیں۔
لیکن بار بار کی درخواست کے باوجود بھی کمیشن کو اس حوالے سے کوئی جواب نہیں ملا۔
سندھ رینجرز کے ترجمان نے ایک مختصر بیان میں دعویٰ کیا کہ آپریشن ہائی ویلیو ٹارگٹ کے خلاف کیا گیا تھا جس میں "شر پسندوں" نے رینجرز کی ٹیم پر حملہ کیا۔
رینجرز ترجمان کے مطابق اس دوران چار رینجرز اہل کار بھی زخمی ہوئے تاہم ان کے زخموں کی نوعیت اور اس حوالے سے مزید کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
سیکیورٹی فورسز کے ایک ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ماڑی جلبانی گوٹھ میں کالعدم 'سندھ ریولوشنری آرمی' سے تعلق رکھنے والے بعض ہائی ویلیو ٹارگٹ کی موجودگی پر آپریشن کیا گیا اور اس کی اطلاع علاقہ پولیس کو بھی تھی۔
حکومتی مؤقف میں بار بار تبدیلی
خیال رہے کہ واقعے پر سرکار کے مؤقف میں کئی بار تبدیلی آئی تھی۔ پہلے صوبائی وزیرِ داخلہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہاں خودکش بمبار کی اطلاع پر کارروائی کی گئی اور اس دوران مقابلے میں چار افراد مارے گئے۔
کچھ ہی دیر کے ہی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ آپریشن کے دوران رینجرز پر حملہ کیا گیا اور انہوں نے اپنے بچاؤ میں فائرنگ کی جس سے ہلاکتیں ہوئیں۔
تاہم پھر پولیس کی جانب سے درج واقعے کی دوسری ایف آئی آر میں کہا گیا کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
ماورائے عدالت قتل کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش
کمیشن کی جانب سے دی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کی مکمل، منصفانہ، جامع اور مکمل شفافیت کے ساتھ تحقیقات کرائی جائیں۔
جو لوگ اس واقعے میں ماورائے عدالت قتل کے مرتکب پائے جائیں ان کے خلاف قانون کے تحت سخت کارروائی کی جائے۔ اس کے علاوہ طالب علم لیاقت جلبانی کی غیر قانونی گرفتاری میں ملوث اہل کاروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی بھی کی جائے۔
کمیشن نے اپنی سفارشات میں مزید کہا ہے کہ اگر اسلحے اور طاقت کا استعمال ناگزیر ہی ہو تو بھی اس سے متعلق اقوامِ متحدہ کے بنیادی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
فورم