خیبر پختون خوا میں معلومات تک رسائی (آر ٹی آئی) کا بل 2013 میں پاس ہوا۔ اس قانون کے تحت عوامی سطح کی معلومات کو 10 دن کے اندر درخواست گزار کو مفت فراہم کرنے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ مقررہ وقت میں معلومات نہ دیے جانے کی صورت میں متعلقہ محکمے کی شکایت رائٹ ٹو انفارمیشن کمشن میں کروا ئی جائے گی، جو معلومات کی فراہمی میں تاخیر پر متعلقہ ادارے سے پوچھ کرے گا۔
قانون کے مطابق عوام میں اس بل کے متعلق شعور اور آگاہی کی ذمہ داری رائٹ ٹو انفارمیشن کمشن کو دی گئی ہے جو معلومات مہیا کرنے والے افسران کی تربیت اور عوامی شکایات بھی سنے گا۔
نجی ٹی وی چینل میں کام کرنے والی پشاور کی ایک صحافي زینت خان نے کہا کہ خیبر پختون خوا کے اس قانون کی ملک کے باقی حصوں اور بیرون ملک بھی لوگ تعریف کرتے ہیں اور خیبرپختونخوا کو آر ٹی آئی کا چیمپئن سمجھتے ہیں مگر سرکاری افسران عمومی طور پر تعاون نہیں کرتے۔
زینت خان نے کہا کہ انہوں نے اس قانون کے تحت کئی درخواستیں جمع کی ہیں مگر یا تو سرکاری ادارے سے ملنے والی معلومات مکمل نہیں ہوتی اور ایک طرح کی معلومات حاصل کرنے کے لئے کئی بار درخواست دینی پڑتی ہیں، جبکہ ایک صحافي ہونے کے ناطے ہمیں خبر دینے کے لئے ادارے سے ایک خاص وقت ملتا ہے۔
کمشن میں شکایت کرنے کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کمشن میں شکایت کرنے سے کبھی کبھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے مگر وہاں پر بھی اس کو حساس نوعیت کا کہہ کر معلومات دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پر صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سفر ویلفیئر آرگنائزیشن کے میڈیا کوارڈی نیٹر سلمان خان نے کہا کہ لوگوں میں قانون کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کا کام کمشن کا ہے مگر اس کے باوجود ہم صحافیوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کو استعمال کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
سینٹر فار پیس اینڈ ڈیولپمنٹ انیشیٹو کے پراجیکٹ کوارڈی نیٹر جمشید طارق نے کہا کہ اکثر صحافیوں کو بھی اس قانون کی اہمیت یا استعمال کے طریقہ کار کا علم نہیں ہوتا جو کہ ایک تشویش ناک بات ہیں۔
خیبر پختون خوا میں معلومات تک رسائی کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2016-17 میں 2859 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 1546 کو معلومات فراہم کردی گئی جبکہ 1215 کو معلومات نہ ملنے کے معاملات کمشن کے سپرد ہوئے تھے جنہیں نمٹایا جا چکا ہے۔
سب سے زیادہ درخواستیں شعبہ تعلیم کے متعلق موصول ہوئی جس کی تعداد 500 کے زائد تھی جس میں 304 کو موقع پر معلومات فراہم کی گئیں جبکہ 194 کے خلاف رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن میں شکایات ردج کروا ئی گئیں۔
صحافی سائرہ مفتی نے کہا کہ صوبائی حکومت اس قانون کو غیر موثر کرنے کی ایک کوشش کر چکی ہے جو ناکام ہوگئی۔ پچھلے سال صوبائی اسمبلی میں ایک ترمیم پیش کی گئی تھی جس میں آر ٹی آئی کے ذریعے درخواست دینے والے سے معلومات حاصل کرنے وجہ اور نیت کے بارے میں پوچھنا ضروری قرار دیا جانا تھا مگر یہ ترمیم کامیاب نہیں ہو سکی۔
سائرہ مفتی نے کہا کہ عوام کا حق ہے کہ وہ اسے ہر طرح کی معلوما ت تک رسائی ہو مگر اسے کسی بھی طرح سے مشروط کرنے سے سرکاری اداروں کے پاس معلومات نہ دینے کا جواز پیدا ہو جائے گا اور وہ یہ اعتراض لگا کر انکار کریں گے کہ درخواست گزار کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔