رسائی کے لنکس

پرویز مشرف کا انتقال: نو برس حکمرانی کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر کا عروج و زوال


پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف 79 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد دبئی کے اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار کی چاپ کئی برس گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔

بارہ اکتوبر 1999 کو بطور آرمی چیف جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے سے لے کر اگست 2008 میں صدرِ مملکت کے عہدے سے مستعفی ہونے تک پرویز مشرف پاکستان میں طاقت کا مرکز رہے۔ اس دوران 2002 سے 2007 تک ملک میں بظاہر جمہوری حکومت رہی لیکن اصل کنٹرول پرویز مشرف کے پاس ہی تھا۔

پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دہلی میں 'نہر والی حویلی' میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے وقت اُن کا خاندان کراچی منتقل ہوا جہاں پرویز مشرف نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے لاہور کے ایف سی کالج سے انٹر کیا جس کے بعد 1964 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے فوج میں کمیشن حاصل کیا۔

پرویز مشرف اپنی خود نوشت 'سب سے پہلے پاکستان'میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں اس دور میں اچھے کالجز کی کمی تھی، لہذٰا والدین نے لاہور کے ایف سی کالج کا انتخاب کیا جو امریکی عیسائی مبلغوں کے زیرِ انتظام تھا۔

پرویز مشرف نے پی ایم اے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد 36 لائٹ اینٹی ایئر کرافٹ رجمنٹ کا انتخاب کیا ۔

وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ افسر کو بغیر بتائے آٹھ دن کی چھٹی پر جانے کے باعث اُنہیں کورٹ مارشل کی کارروائی کا سامنا تھا، لیکن 1965 کی پاک، بھارت جنگ کی وجہ سے وہ بچ گئے۔

انہوں نے 1965 اور 1971 کی پاک، بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور 65 کی جنگ میں ؒلاہور کے محاذ پر لڑائی لڑی۔

پرویز مشرف 1985 سے 1998 تک لیفٹننٹ کرنل سے ترقی کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل کے رینک تک پہنچے اور اس کے بعد اُن کی زندگی میں وہ اہم موڑ آیا جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔

بطور آرمی چیف تقرری

سن 1998 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نیول اسٹاف کالج میں قومی سطح پر 'نیشنل سیکیورٹی کونسل' کے قیام کی تجویز دی جو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بالکل بھی نہ بھائی اور اُنہوں نے آرمی چیف سے استعفیٰ طلب کر لیا۔

جنرل جہانگیر کرامت نے بغٰیر کسی لیت و لعل گھر جانے کو ترجیح دی جس کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف کے پاس نئے آرمی چیف کے انتخاب کے لیے نام سامنے آئے۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) ضیاء الدین بٹ نے چند برس قبل روزنامہ نوائے وقت کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرل مشرف کو سنیارٹی میں نیچے ہونے کے باوجود نواز شریف نے آرمی چیف بنایا۔

اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت کے سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) افتحارعلی خان کی ایڈوائس پر نواز شریف نے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا۔

جنرل افتحار علی خان مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثار علی خان کے بھائی تھے جن کا 2009 میں انتقال ہو چکا ہے۔

نواز شریف سے اختلافات

پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل جہانگیر کرامت کو صرف ایک بیان دینے پر عہدے سے ہٹانے پر فوج میں غم و غصہ پایا جاتا تھا، تاہم اُنہوں ںے آئین کے تحت جمہوری حکومت کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔

سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعلقات فروری 1999 میں ہی کشیدہ ہونا شروع ہو گئے تھے جب اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی بذریعہ بس لاہور پہنچے تھے۔ آرمی چیف بھارتی وزیرِ اعظم کے استقبال کے دوران واہگہ بارڈر بھی نہیں پہنچے تھے۔

اُن کے بقول نواز شریف کے ساتھ اُن کے ابتدائی چند ماہ اچھے تعلقات رہے، تاہم کارگل جنگ اور چار جولائی 1999 کو وزیرِ اعظم کے دورۂ امریکہ کے بعد نواز شریف کے ساتھ تعلقات خراب ہوگئے۔

خٰیال رہے کہ مئی 1999 میں پاکستان اور بھارتی کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا تھا۔

بھارت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ پاکستانی فوج نے ایل او سی کی خلاف ورزی کی ہے۔ کئی روز کی لڑائی کے بعد بین الاقوامی سرحد پر جنگ کے بادل بھی منڈلانے لگے تھے۔ تاہم جولائی 1999 میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور امریکی صدر بل کلنٹن کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد پاکستان نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا تھا۔

پرویز مشرف کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ اُنہوں نے کارگل آپریشن سے متعلق نواز شریف کو آگاہ کیا تھا۔ تاہم نواز شریف مختلف مواقع پر یہ کہتے رہے ہیں کہ کارگل آپریشن پرویز مشرف نے شروع کیا۔ پرویز مشرف نواز شریف کی بل کلنٹن سے ملاقات کو کارگل جنگ میں پاکستان کی پسپائی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

بارہ اکتوبر 1999

کارگل جنگ کے اختتام کے باوجود آرمی چیف اور وزیرِ اعظم کے تعلقات میں بہتری نہ آ سکی اور پھر 12 اکتوبر 1999 آ گیا جب آرمی چیف پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ کی اجازت نہ ملی۔ پرویز مشرف سری لنکاکا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد پی آئی اے کی پرواز سے وطن واپس آ رہے تھے۔

پرویز مشرف ابھی پاکستان پہنچے ہی نہیں تھے کہ سرکاری ٹی وی پر یہ خبریں چلنے لگیں کہ وزیرِ اعظم نے جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے فارغ کر کے جنرل ضٰیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔

اس روز کے واقعات کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور اس وقت وفاقی وزیر جاوید ہاشمی اپنی کتاب 'ہاں! میں باغی ہوں' میں لکھتے ہیں کہ اُن کے اسٹاف نے12 اکتوبر کی شام اُنہیں بتایا کہ وزیرِ اعظم نے آرمی چیف کو تبدیل کر دیا ہے۔ جاوید ہاشمی کے بقول انہوں نے یہ سنتے ہی اپنے اسٹاف سے کہا کہ بس اب سامان باندھ لیں۔

جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ اُن کے سامنے آگےکا نقشہ واضح تھا اور پھر وہی ہوا جس کا اُنہیں اندیشہ تھا، کچھ ہی دیر بعد وزیرِ اعظم ہاؤس، پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کی عمارتوں پر فوج کا قبضہ تھا۔

پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالتے ہی 12 اور 13 اکتوبر کی درمیانی شب کمانڈو وردی میں قوم سے خطاب کیا اور نواز شریف حکومت پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے ملک کو درست ڈگر پر ڈالنے کے دعوے کیے۔

وہ 1999 سے 2002 کے دوران مکمل طور پر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے اور سپریم کورٹ نے بھی 'نظریہ ضرورت' کے تحت اُن کے اقتدار کو آئینی تحفظ دیا۔

سن 1999 سے 2001 تک وہ بطور چیف ایگزیکٹو حکمرانی کرتے رہے۔ تاہم 2001 میں دورۂ بھارت سے قبل سرکاری پروٹوکول کے تناظر میں اُنہوں نے اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کی چھٹی کر دی اور خود ملک کے صدر بن گئے۔

اسی دوران غداری کے مقدمات کا سامنا کرنے والے شریف خاندان کو بھی پرویز مشرف نے دسمبر 2000 میں سعودی عرب جانے کی اجازت دے دی۔

نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ

امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے ہولناک حملوں کے بعد عالمی منظر نامہ تبدیل ہوا تو نگاہوں کا مرکز افغانستان میں القاعدہ کی قیادت بنی۔

امریکہ نے پاکستان کے ذریعے افغانستان میں اس وقت کی طالبان قیادت سے مطالبہ کیا کہ اُسامہ بن لادن اور اُن کے ساتھیوں کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے ورنہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرے گا۔ تاہم افغان طالبان نے امریکی مطالبے کو رد کیا جس کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ کیا۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں پارلیمنٹ نہیں تھی اور فیصلے کا اختیار صرف فردِ واحد پرویز مشرف کے پاس تھا۔ پرویز مشرف نے اس اہم موقع پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کیا جس پر مذہبی جماعتوں سمیت بعض حلقوں نے تنقید کی۔

ریفرنڈم

اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے پرویز مشرف نے 30 اپریل 2002 کو ایک ریفرنڈم کرایا۔ ریفرنڈم میں عوام سے سوال کیا گیا تھا کہ اگر وہ ملک میں معاشی اصلاحات اور ترقی کا تسلسل چاہتے ہیں تو آرمی چیف اور صدر کو پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کے حق میں ووٹ دیں۔

اس ریفرنڈم میں 97 فی صد سے زائد شہریوں نے پرویز مشرف کے حق میں ووٹ دیا، البتہ ان نتائج پر سیاسی اور عوامی حلقے آج بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔

قاتلانہ حملے

سابق صدر پرویز مشرف پر اپنے دورِ اقتدار کے دوران قاتلانہ حملے بھی ہوتے رہے اور اس حوالے سے 2003 کا سال اُن کے لیے انتہائی خطرناک رہا۔

چودہ دسمبر 2003 کو کراچی سے راولپنڈی آمد پر جب چکلالہ ایئر بیس سے اُن کا قافلہ آرمی ہاؤس کی جانب گامزن تھا تو جھنڈا چیچی کے مقام پر ایک پل کے نیچے نصب دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے پل کو اُڑا دیا گیا، تاہم پرویز مشرف اس حملے میں محفوظ رہے۔

اپنی کتاب 'سب سے پہلے پاکستان ' میں سابق صدر لکھتے ہیں کہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ کی اُن کی تین ٹن وزنی بلٹ پروف مرسیڈیز سڑک سے کئی فٹ اُوپر اچھلی۔ لیکن معجزانہ طور پر وہ محفوظ رہے اور اسی شب اُنہوں ںے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت کی۔

پرویز مشرف پر 25 دسمبر 2003 کو ایک اور حملہ ہوا جب آرمی ہاؤس کے قریب واقع ایک پیٹرول پمپ سے اچانک ایک گاڑی نمودار ہوئی اور صدارتی قافلے کو نشانہ بنایا۔ اس اثنا میں ایک اور گاڑی نے قافلے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ بعدازاں حکام نے انہیں خود کش حملے قرار دیا اور ان حملوں میں پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد ہلاک ہوئے اور پرویز مشرف ایک بار پھر محفوظ رہے۔

سن 2002 کے عام انتخابات اور وردی اُتارنے کا وعدہ

پرویز مشرف کو ملک میں عام انتخابات کا وعدہ پورا کرنے میں تین برس لگے اور آخر کار سن 2002 میں عام انتخابات ہوئے۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی ملک میں غیر موجودگی میں ہونے والے ان انتخابات میں پرویز مشرف کی 'منظورِ نظر ' پارٹی مسلم لیگ (ق) کامیاب ہوئی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی وزیرِاعظم بنے۔

حیران کن طور پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) دوسری بڑی جماعت بن کر اُبھری۔

پرویز مشرف نے انتخابی اور سیاسی اصلاحات پر مبنی آئین میں سترہویں ترمیم کا بل منظور کرانے کے لیے ایم ایم اے کی حمایت حاصل کی جس کے بدلے میں اُنہوں نے دسمبر 2004 میں وردی اُتارنے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا۔

ناقدین کے مطابق آئین میں سترہویں ترمیم کے ذریعے دو سے زائد مرتبہ وزیرِ اعظم بننے پر پابندی کی شق سب سے نمایاں تھی جس کا مقصد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنا تھا۔

سن 2004 میں پرویز مشرف نے میر ظفر اللہ جمالی کو اُن کے عہدے سے برطرف کیا اور دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت حسین ملک کے وزیرِ اعظم بنے۔ بعدازاں امریکہ سے آنے والے بینکر شوکت عزیز ملک کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔

وکلا تحریک, لال مسجد اور پرویز مشرف کا زوال

وردی اُتارنے کا وعدہ پورا نہ کرنے پر جہاں پرویز مشرف پر ایم ایم اے کی جانب سے سیاسی دباؤ بڑھ رہا تھا تو وہیں مارچ 2007 میں پرویز مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتحار چوہدری کو اپنے دفتر بلا کر مبینہ طور پر استعفے دینے کا کہا، لیکن افتحار چوہدری نے مستعفی ہونے سے انکار کیا اور پورے ملک میں وکلا نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق ملک بھر میں وکلا تحریک کا آغاز پرویز مشرف کے زوال کا آغاز بھی ثابت ہوا اور اقتدار پر اُن کی گرفت کمزور پڑتی گئی۔

اس دوران جولائی 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد میں مبینہ دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر فوج نے آپریشن کیا جس پر لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی ہلاک ہو گئے۔ لال مسجد انتظامیہ نے اس واقعے میں درجنوں طلبہ کی ہلاکت کے بھی دعوے کیے۔

لال مسجد پر چڑھائی کا ذمے دار بھی سابق صدر پرویز مشرف کو ٹھہرایا گیا اور عوامی سطح پر اُن کے خلاف غصے میں اضافہ ہوا۔

نومبر 2007 میں آخر کار آٹھ برس تک بلا شرکتِ غیر ےحکمرانی کرنے والے پرویز مشرف نے اپنی وردی اُتار دی اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سپرد کر دی۔ لیکن اس سے قبل تین نومبر کو بطور فوجی صدر اُنہوں نے ملک میں آئین معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کر دی ۔ ایمرجنسی کے دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔

این آر او

ناقدین کے مطابق اقتدار پر اپنی گرفت کمزور پڑتی دیکھ کر پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو سے رابطہ کیا اور اُن کے مقدمات ختم کرنے کے عوض اُن کے ساتھ سمجھوتہ کیا جسے قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کا نام دیا گیا۔

پانچ اکتوبر 2007 کو جاری کیے جانے والے اس صدارتی آرڈیننس کی باز گشت آج بھی پاکستان کی سیاست میں سنائی دیتی ہے۔

اس آرڈیننس کے تحت پرویز مشرف نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے 1986 سے لے کر 1999 تک 'سیاسی بنیادوں' پر بننے والے مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے مختلف سیاسی جماعتوں کے ہزاروں افراد کو فائدہ ہوا جو قتل، اقدامِ قتل اور بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔

این آر او کے بعد ہی اکتوبر 2007 میں سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو اور نومبر 2007 میں نواز شریف اور اُن کے بھائی شہباز شریف بھی وطن واپس آ گئے اور عملی سیاست کا دوبارہ آغاز کر دیا۔

تاہم دو برس بعد سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری نے اس آرڈیننس کو مفادِ عامہ سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جس کے بعد تمام مقدمات دوبارہ کھل گئے۔

بے نظیر بھٹو کا قتل اور عام انتخابات 2008

نومبر 2007 میں وردی اُتارنے کے بعد پرویز مشرف نے آٹھ جنوری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیا، لیکن 27 دسمبر کو انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد پرویز مشرف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ پرویز مشرف کی ایما پر بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی نہیں دی گئی، لہذٰا وہ بھی مجرمانہ سازش کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ تاہم مختلف مواقع پر پرویز مشرف اپنے اُوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری کو بے نظیر بھٹو کے قتل کا ذمے دار ٹھہراتے رہے ہیں۔

بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد عام انتخابات کی تاریخ تبدیل کر دی گئی اور 18 فروری کو ہونے والے ان انتخابات میں پیپلزپارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری اور مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر مرکز میں اس نے حکومت بنا لی۔

یہ وہ وقت تھا جب پرویز مشرف کی صدارت بھی خطرے میں پڑ گئی تھی اور اتحادی حکومت کے اندر سے اُنہیں عہدے سے ہٹانے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ آخر کار اتحادی حکومت نے اُن کے مواخذے کی تحریک جمع کر ا دی۔ تاہم مواخذے کا سامنا کرنے سے قبل ہی پرویز مشرف 18 اگست 2008 کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور انہیں گارڈ آف آنر کے ساتھ ایوانِ صدر سے رُخصت کیا گیا جس کے بعد 2009 میں وہ بیرون ملک چلے گئے۔

سن 2011 تک جنرل پرویز مشرف امریکہ اور برطانیہ کی مختلف یونیورسٹیز میں لیکچرز دیتے رہے اس دوران اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کی بنیاد رکھی۔ تاہم 2013 کے عام انتخابات سے قبل اُنہوں نے وطن واپسی کا اشارہ دیا اور عام انتخابات میں حصہ لینے کی غرض سے وہ 24 مارچ 2013 کو کراچی پہنچے جہاں ایئرپورٹ پر اُن کے درجنوں کارکنوں نے استقبال کیا۔

البتہ چترال میں قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن لڑنے کی خواہش اُن کے دل ہی میں رہی اور الیکشن ٹریبونل نے اُنہیں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔

مقدمات کا سامنا

اپریل 2013 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز کو نظر بند کرنے کے الزام میں سابق صدر کی ضمانت منسوخ کرتے ہوئے اُن کی گرفتاری کے احکامات دیے۔ تاہم وہ سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں عدالت سے جیل جانے کے بجائے اسلام آباد کے نواحی علاقے چک شہزاد پر واقع اپنے فارم ہاؤس پہنچ گئے۔

اس دوران لال مسجد کیس، بے نظیر بھٹو قتل کیس میں مقدمات کے اندراج کے باعث اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔بعدازاں مارچ 2016 میں طبی بنیادوں پر اُن کے بیرونِ ملک علاج کے لیے اُن کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکال دیا گیا اور پھر وہ ملک سے چلے گئے۔

اس دوران 2017 میں مقامی نیوز چینل 'بول' میں اُنہوں نے 'سب سے پہلے پاکستان' کے نام سے پروگرام بھی شروع کیا او ربھارت سمیت دنیا کے مختلف نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں بھی شریک ہوتے رہے۔

غداری کے الزامات اور سزا

سابق صدر پر سال 2007 میں ملک کا آئین معطل کرنے اور ایمرجنسی لگانے پر غداری کے الزامات لگائے گئے تھے۔ جس پر ان کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔

پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو 2019 میں سنگین غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تھی لیکن 2020 میں لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قانونی کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔

سابق فوجی آمر کو سزائے موت سنانے کے فیصلے پر پاکستان کی فوج کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا۔ بعد میں حکومت نے بھی اس فیصلے کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔

XS
SM
MD
LG