|
ویب ڈیسک__سعودی عرب میں جاری ’ریاض سیزن‘ میں ہونے والے میوزک کنسرٹس اور فیش شوز جیسی سرگرمیوں کو جہاں ملک میں آنے والے تبدیلیوں کی جھلک قرار دیا جا رہا ہے وہیں ان ایونٹس سے متعلق تنازعات بھی سامنے آئے ہیں۔
دارالحکومت ریاض میں جاری کھیلوں کے مقابلوں، میوزک کنسرٹس اور فیشن شوز سمیت دیگر تفریحی سرگرمیوں پر مشتمل ‘ریاض سیزن‘ جاری ہے جسے منتظمین ’موسم سرما کا سب سے بڑا‘ تفریحی سرگرمیوں کا سلسلہ قرار دیتے ہیں۔
اکتوبر میں شروع ہونے والے اس سیزن میں 100 فیسٹویلز اور 11 سے زائد انٹرنیشنل چیمپئن شپس کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان تقریبات کے لیے 14 زونز مختص کیے گئے ہیں۔
انہی ایونٹس میں سے گزشتہ ہفتے ہونے والے فیشن شو سے متعلق یہ تنازع سامنے آیا کہ اس میں ایک مربع شکل دکھائی گئی جو خانہ کعبہ سے مماثلت رکھتی ہے۔
اس کے بعد 2023 کی ایک اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی جس میں ایک میوزک کنسرٹ میں اسٹیج پر مکعب یا چوکور شکل کا ڈھانچا دکھایا گیا ہے اور پرفارمز اس کے گرد رقص کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آئیں کہ ریاض سیزن میں ایک ایونٹ کے دوران چوکور اسٹرکچر کے ساتھ ساتھ اسٹیج پر بڑے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں۔
سعودی عرب کے مقامی میڈیا کے مطابق حکام نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ کنسرٹ یا فیشن واک میں اسٹیج پر نظر آنے والا چوکور یا مربع اسٹرکچر خانہ کعبہ کی عکاسی کرتا ہے اور ان کے مطابق ایسا کوئی ماڈل ریاض سیزن میں نہیں رکھا گیا ہے۔
عرب دنیا سے متعلق خبریں رپورٹ کرنے والی قطری نیوز ویب سائٹ ’نیو عرب‘ کے مطابق حکام نے ریاض سیزن میں بتوں یا مورتیوں کی موجودگی کی بھی تردید کی ہے۔ تاہم سعودی عرب کی حکومت نے سوشل میڈیا پر زیرِ بحث تنازع سے متعلق کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب میں 2012 میں افواہوں کی روک تھام کے لیے قائم ہونے والی اتھارٹی ’ہیئت مکافحہ الاشاعت‘ یا اینٹی ریومیر اتھارٹی نے بھی اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب میں خانہ کعبہ کی کوئی نقل یا ماڈل موجود نہیں ہے۔
اس کے مطابق مربع سے مماثلت رکھنے والا اسٹرکچر دراصل چھت سے جڑے آئینے تھے جنھیں وژول افکیٹس وغیرہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اتھارٹی نے مزید کہا ہے کہ یہ دل چسپی کی بات یہ ہے کہ دنیا میں اور بھی کئی مربع ساخت کی عمارتیں ہیں اور دنیا میں معروف ہیں جن میں نیویارک کا مشہور ایپل اسٹور اور جرمنی میں واقع برلن کیوب شامل ہیں۔ لیکن کسی کو ان کی کعبے سے مماثلت کا خیال نہیں آیا جس طرح سعودی عرب کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہیئت مکافحہ الاشاعت کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایک آزاد ادارہ ہے جو گمراہ کن اور غلط معلومات کی چھان بین کے لیے کام کرتا ہے۔ ریاض سیزن کے آفیشل ہینڈل نے اس کی فیکٹ چیک پوسٹ کو ری پوسٹ کیا ہے۔
فیک چیکرز کے مطابق 2023 کی جس ویڈیو کو ریاض سیزن سے منسوب کیا جا رہا ہے جس میں ایک جوکور اسٹرکچر کے آگے پرفارمر رقص کر رہے ہیں وہ دراصل اس ایونٹ کی ویڈیو نہیں ہے۔
ریاض سیزن پر مختلف آرا
مشرقِ وسطی کی کوریج کرنے والی برطانیہ کی ویب سائٹ ’مڈل ایسٹ آئی‘ کے مطابق ریاض سیزن میں ہونے والی پرفارمنسز پر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا سعودی عرب میں ثقافتی سرگرمیوں کے حامی غیر ملکی سیلیبریٹیز کی ریاض سیزن میں آمد کو بین الاقوامی سطح پر اپنی نئی شناخت تسلیم کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ وہیں بہت سے صارفین اسے سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات کے تقدس کے برخلاف بھی قرار دے رہے ہیں۔
البتہ ریاض کنسرٹ پر ہونے والی تنقید کا تناظر صرف مذہبی نہیں۔13 نومبر کو امریکی گلوکارہ جینیفر لوپیز کے کنسرٹ پر سعودی عرب میں خواتین کے حقوق اور آزادی اظہار کی وکالت کرنے والے بھی اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔
سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ایک میجیشیئن پرفارمر مریم السلطان نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ جینفیر لوپیز نے بمشکل اپنا بدن ڈھانپ رکھا ہے جب کہ کتنی ہی خواتین آج بھی سعودی عرب میں اپنے لباس اور مذہب کے بارے میں اپنے خیالات کی وجہ سے قید ہیں۔
ریاض سیزن ہے کیا؟
سعودی عرب میں ہونے والے ریاض سیزن کا اکتوبر میں شروع ہوا ہے اور یہ مارچ 2025 تک جاری رہے گا۔
پہلی بار ریاض سیزن یا ’موسم الریاض‘ 2019 میں ہوا تھا۔ موسمِ سرما میں کھیل، تفریح اور فیشن سے متعلق تقریبات اور ایونٹس پر مشتمل یہ سیزن سعودی عرب کے سرکاری محکمے جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی منعقد کرتی ہے۔
یہ اتھارٹی 2016 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ’سعودی وژن 2030‘ کے مطابق متعلقہ حکومتی اداروں اور نجی شعبے کے تعاون سے انٹرٹینمنٹ سیکٹر کو اپنے پیروں پر کھڑنا ہے۔
اتھارٹی کے مطابق تفریحی اور کھیل کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کا مقصد سب کے ’’معیارِ زندگی میں بہتری‘‘ اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپریل 2016 میں وژن 2030 کا اعلان کیا تھا جس میں سعودی عرب میں معاشی، سماجی اور ثقافتی سطح پر تنوع پیدا کرنے کے لیے اقدامات اور سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس وژن میں عملی شعبوں میں خواتین کا کردار بڑھانے اور ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر بھی زور دیا گیا تھا۔
اس اتھارٹی کے چیئرمین ترکی آل شیخ ہیں جو شاہی دربار کے مشیر بھی ہیں۔ ترکی آل شیخ کو ریاض سیزن کا روح رواں سمجھا جاتا ہے۔
ترکی آل شیخ نے سعودی عرب میں کئی بڑے اسپورٹس ایوننٹس کرائے ہیں اور خاص طور پر ریاض سیزن میں کھیلوں کی دنیا کے کئی بڑے نام لا چکے ہیں۔
سعودی عرب میں باشاہت کے قیام میں آل سعود کا ساتھ دینے والی مذہبی تحریک وہابیت کے بانی محمد بن عبد الوہاب کی اولاد سے تعلق رکھنے والے افراد کو آل شیخ کہا جاتا ہے۔
لبرلائزیشن؟
سعودی حکومت نے 2018 میں خواتین پر گھر کے کسی مرد کے بغیر سفر کرنے اور ڈارئیونگ نہ کرنے جیسی پابندیاں ختم کردی تھیں۔ اس کے بعد سے سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی اقدامات کیے جاتے رہے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان سعودی عرب کے قدامت پسند سوسائٹی میں لبرلائزیشن لائے ہیں اور انہوں نے کئی پہلوؤں سے آزادی دینے کے لیے غیر روایتی اقدامات کیے ہیں۔
لیکن دوسری جانب اقتدار پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے وہ اپنے مخالفین کو سخت سزائیں دیتے ہیں اور حکومت پر تنقید کرنے والی آوازیں خاموش کردی جاتی ہیں۔
گزشتہ ماہ سعودی عرب میں محمد الغامدی نامی کارٹونسٹ کو سلطنت کی اہانت کے جرم میں 23 سال قید کی سزا دی گئی۔
اس سے قبل 2022 میں پی ایچ ڈی کی ایک طالبہ سلمیٰ الشہاب کو ’افواہیں پھیلانے‘ اور اختلافی پوسٹس کو ری ٹوئٹ کرنے پر 34 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
سعودی عرب میں شاہی خاندان پر تنقید کرنے یا سوالات اٹھانے والوں کے خلاف مقدمات اور سزاؤں پر ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور ادارے بھی تنقید کرتے آئے ہیں۔ البتہ سعودی عرب حکومت عام طور پر ایسے الزامات اور خبروں پر براہ راست تبصرہ نہیں کرتی ہے۔
فورم