امریکی وزیر دفاع جِم میٹس نے کہا ہے کہ اپنی نئی حکمت عملی سے طالبان باغیوں کے ساتھ تعطل دور کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ امریکہ افغانستان میں لڑائی بند کرے گا۔
بدھ کے روز کابل کے دورے کے دوران، میٹس نے کہا کہ ’’صورت حال سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں جنوبی ایشیا سے متعلق ہماری نئی حکمت عملی ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں پانسہ پلٹنے کے لیے (افغانستان) میں اپنی افواج کی مدد کر سکیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ہم ’’ہم افغانستان کو بے رحم دشمن کے حوالےنہیں کریں گے، جو اقتدار میں آنے کے لیے مار دھاڑ پر اتر آیا ہے‘‘۔
اُن کی آمد کے چند ہی گھنٹے بعد، کابل ایئرپورٹ پر راکیٹ حملہ کیا گیا جس میں ایک شخص ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔ طالبان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے کا ہدف میٹس کا طیارہ تھا۔ داعش نے بھی حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
اُس وقت میٹس ہوائی اڈے کے قریب نہیں تھے۔
نیٹو سکریٹری جنرل جینز اسٹالٹن برگ نے، جو بھی اِس وقت کابل میں ہیں، افغانستان کے معاملے پر نیٹو کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشہ ماہ افغانستان کے بارے میں اعلان کردہ پالیسی میں علاقائی ملکوں کو زیادہ کردار دینے پر زور دیتا ہے، جس میں بھارت بھی شامل ہے۔
میٹس بدھ کی صبح نئی دہلی سے کابل پہنچے، جہاں وہ امریکی حکام کے مطابق، افغان صدر اشرف غنی اور افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں کے علاوہ نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹالٹن برگ سے بھی ملیں گے۔
جم میٹس جنوبی ایشیا سے متعلق ٹرمپ حکومت کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد خطے کے ممالک کے دورے پر ہیں جس کے دوران وہ نئی پالیسی سے متعلق خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے اور پالیسی پر عمل درآمد کے لیے اتحادیوں کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نئی دہلی میں اپنے دو روزہ قیام کے دوران امریکی وزیرِ دفاع نے افغانستان میں بھارت کی "قابلِ قدر خدمات" کو سراہا اور کہا تھا کہ امریکہ افغانستان میں جمہوریت، استحکام اور سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کی مزید کوششوں کا خیرمقدم کرے گا۔
اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اخباری کانفرنس کرتے ہوئے بھارتی وزیرِ دفاع نرملا سیتھا رام نے یقین دلایا تھا کہ ان کا ملک افغانستان کے ساتھ تعاون بڑھائے گا۔ لیکن، انہوں نے بھارتی فوج افغانستان بھیجنے کا امکان مسترد کردیا تھا۔
نئی امریکی حکمتِ عملی میں افغانستان میں تعینات فوجیوں کی تعداد بڑھانے کی تجویز بھی شامل ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیرِ دفاع نے مزید 3000 امریکی فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار سے بڑھ جائے گی۔
ٹرمپ انتظامیہ کی افغان جنگ سے متعلق نئی حکمتِ عملی میں طاقت کے زیادہ استعمال کی حمایت بھی کی گئی ہے۔
امریکی فوجی حکام کے مطابق، امریکی فوج نے اگست 2017ء کے دوران افغان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران 503 بم گرائے جو 2012ء کے بعد سے کسی بھی ایک مہینے کے دوران برسائے جانے والے سب سے زیادہ بم ہیں۔
نئی پالیسی میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی بات بھی کی گئی ہے جسے پاکستانی رہنما اور فوجی حکام مسترد کرچکے ہیں۔
جم میٹس بدھ کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر نئی دہلی سے کابل پہنچے، لیکن پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ میٹس کا پاکستان کا دورہ نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ واشنگٹن، اسلام آباد کو نظر انداز کر رہا ہے۔