راجر سٹون جو ری پبلکن پارٹی کے ایک سابق سرگرم کارکن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک پرانے دوست اور سیاسی مشیر ہیں، دو ہفتوں میں قید کی اپنی سزا کاٹنا شروع کریں گے، جو ایک نئے مقدمے کے لیے ان کی درخواست کے ایک فیصلے کی وجہ سے زیر التوا ہے۔
ایک وفاقی جج نے جمعرات کے روز راجر سٹون کو سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق کانگریس کی تحقیقات کے دوران جھوٹ بولنے پر تین سال اور چار مہینے کی سزا سنائی۔
فیڈرل ڈسٹرکٹ جج ایمی برمن جیکسن کی طرف سے یہ سزا کئی ہفتوں سے جاری اس بحث مباحثے کے بعد سنائی گئی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے، جس سے محکمہ انصاف کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی، صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئٹس میں کہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ سٹون کی سزا معاف کر دیں۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا آیا ان کے مشیر کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے جیوری پر بھی نکتہ چینی کی۔
سٹون کی سزا اس سے تقریباً نصف تھی جو وفاقی پراسیکیوٹرز نے ابتدائی طور پر ان کے لیے تجویز کی تھی۔ اٹارنی جنرل ولیم بَر نے ان کی سفارش کو مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں انصاف کے نظام میں سیاسی دخل اندازی پر ایک ہنگامہ شروع ہو گیا۔ سزا سنائے جانے کے بعد ٹرمپ نے سٹون کی پراسیکیوشن کو غیر منصفانہ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ راجر سٹون کچھ عرصے سے خبروں کا ایک اہم حصہ بن گئے ہیں اور میں اس معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں اور میں اسے بھرپور طریقے سے انجام ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں، کیوں کہ میری رائے میں راجر کے لیے رہائی کا ایک بہت اچھا موقع موجود ہے۔
سٹون ایک نئے مقدمے کے لیے اپنی درخواست پر کارروائی کے بعد توقع ہے کہ دو ہفتے میں اپنی سزا شروع کریں گے۔
جج جیکسن نے سٹون کو چالیس مہینے کی سزا دینے سے قبل اٹارنی جنرل بَر کی مداخلت کو بے مثال اور ٹرمپ کی جانب سے سٹون کے مقدمے میں بار بار کھلم کھلا تبصروں کو مکمل طور پر نامناسب قرار دیتے ہوئے، انتظامیہ پر مقدمے سے نمٹنے کے اس کے انداز پر تنقید کی۔