اقوام متحدہ کے معروف امدادی اداروں کے سر براہوں نے روہنگیا کے تمام پناہ گزینوں اور بنگلہ دیش کی میزبان کمیونٹیز سمیت ایک 12 لاکھ لوگوں کو زندگی بچانے میں معاونت فراہم کرنے کے لیے 434 ملین ڈالر ز کے فنڈز اکٹھے کرنے کی غرض سے ایک روزہ خصوصی کانفرنس کا انعقاد کیا ہے۔
وعدوں سے متعلق کانفرنس کے انعقاد سے قبل، پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ گذشتہ دو ماہ میں میانمار میں تشدد سے بچنے کے لیے فرار اختیار کرنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد بڑھ کر اب چھ لاکھ ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں یہ پناہ گزینوں کا دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا بحران بن چکا ہے۔
امدادی ادارے اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ دنیا بھر کا انتہائی کم فنڈز حاصل کرنے والا ایک بحران بھی ہے۔ پناہ گزینوں کی اس بڑھتی ہوئی آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروريات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے، انسانی ہمددردی کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل مارک لوکوک کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کا اصل مقصد لوگوں کی زندگیاں بچانے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے وسائل کو متحرک کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ضروريات کی نوعیت مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں ۔ نئے آنے والوں میں متعدد ایسے بچے شامل ہیں جو غذائیت کی شديد قلت کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اداروں نے اب تک مدد کی جو اپیلیں کی ہیں انہیں ان اپیلوں کو مسلسل اپ ڈیٹ اور حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہو گی اور ہم اس پر آج گفتگو کر رہے ہیں۔ یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ فنڈز کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہمیں بڑھتی ہوئی ضروريات سے مطابقت رکھتے ہوئے مزید رقم کی ضرورت ہے۔
جب سے یہ بحران شروع ہوا ہے، اقوام متحدہ کے ادارے پناہ گزینوں کو ہنگامی طور پر درکار خوراک، پناہ، پانی ،نکاسئی آب ، صحت کی دیکھ بھال ا ور دوسری امداد فراہم کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی ہمددردی کی کارروائیوں میں اضافے کی ضرورت ہے لیکن ان کے پاس فنڈز کی بہت کمی ہے اور ان کے لیے وہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں ہے جو کیا جانا چاہیے۔ در حقیقت انہوں نے انتباہ کیا ہے کہ جب تک اضافی فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے، ہنگامی امداد زیادہ دیر تک نہیں چل پائے گی۔
مثال کے طور پر خوراک کے عالمی ادارے کو جو 5 کاکھ 80 ہزار لوگوں کو راشن فراہم کر رہا ہے اسے یہ امدادی کارروائی جاری رکھنے کے لیے جتنی رقم درکار ر ہے اسے اب تک اس کا صرف 30 فیصد وصول ہوا ہے۔ اورجب کہ روہنگیا کی پناہ گزین آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد بچوں پر مشتمل ہے، ا قوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے نے خبر دی ہے کہ اس نے مدد کی جو اپیل کی اسے اس کا صرف 7 فیصد وصو ل ہوا ہے جو افسوسناک حد تک بہت کم امداد ہے۔