ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ اُن کا ملک امریکہ کے خلاف ڈٹ جائے گا، اور اگر امریکہ نے اسلامی جمہوریہ پر کوئی نئی پابندی لگائی تو ایران اُس کا جواب دے گا۔
روحانی نے کہا کہ ’’ہم امریکہ کے خلاف ڈٹ جائیں گے‘‘۔ مزید وضاحت کیے بغیر، اُنھوں نے کہا کہ ’’ایران کا عظیم ملک اس کا مناسب جواب دے گا‘‘۔
روحانی نے یہ بیان کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں دیا، جسے براہ راست نشر کیا گیا۔ اس سے ایک ہی روز قبل امریکہ نے 18 ایرانیوں اور انفرادی گروہوں کے خلاف نئی تعزیرات عائد کرنے کا اعلان کیا، جن پر ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت کا الزام ہے۔
روحانی سیاسی طور پر اعتدال پسند ہیں، جو اب امریکہ کے بارے میں کھل کر بیان دینے لگے ہیں۔ وہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ’’ناہموار سڑک‘‘ قرار دیتے ہیں۔
امریکی محکمہٴ خارجہ نے دو گروہوں کے خلاف تعزیرات لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے، جو ایران کے پیشہ ور تربیت یافتہ پاسدارانِ انقلاب سے منسلک ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ وہ بیلسٹک میزائل کی تحقیق اور ترقی میں ملوث ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی سرگرمیاں ’’علاقائی استحکام، سلامتی اور خوش حالی کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘۔
محکمہٴ خزانہ کی جانب سے عائد کردہ تعزیرات
دریں اثنا، امریکی محکمہٴ خارجہ نے پانچ افراد اور سات تنظیموں پر پابندیاں عائد کردی ہیں، جن پر ایران کے حربی سودوں میں اعانت کے علاوہ تین دیگر ایرانی شامل ہیں، جن کے لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ ’’ایران میں قائم کثیر ملکی جرائم پیشہ تنظیم‘‘ کا جُزو ہیں۔
تعزیرات لگنے کے نتیجے میں نشانہ بنائے گئے ایرانیوں کے امریکہ میں کسی اثاثے کو منجمد کر دیا گیا ہے، جب کہ کسی بھی امریکی کو اُن سے کاروبار کرنے پر پابندی ہوگی۔
اقوام متحدہ میں ایران کے وزیر خارجہ محمد ظریف نے نیو یارک میں ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’بدقسمتی سے تعزیرات امریکہ کی ایک بد خصلت بن چکی ہے‘‘، جب کہ امریکہ کو ایران سے انتقامی کارروائی کی توقع رکھنی چاہئیے۔
ظریف نے کہا کہ ’’اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو ہمارے خطے میں دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ توسیع پسندی کی حمایت کرتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے خلاف بدلے پر مبنی تعزیرات ’’بہت جلد سامنے آئیں گی‘‘۔