رسائی کے لنکس

'بلاول اپنے والد کو سیاست سے مائنس نہیں کرسکتے'


پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے درمیان سیاسی اختلاف کا اعلانیہ اظہار سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ آصف زرداری پاور پالیٹکس (اقتدار کی سیاست) کے لیے مشہور ہیں جب کہ بلاول بھٹو عوامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اس لیے دونوں کے درمیان سوچ کا فرق وقتاً فوقتاً مختلف مراحل پر دکھائی دیتا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں ایک جلسے کے دوران بزرگ سیاست دانوں کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا جب کہ ان کے والد آصف زرداری نے ایک انٹرویو میں کہا کہ بلاول ابھی نوجوان ہیں اور زیرِ تربیت ہیں۔

آصف زرداری کے انٹرویو کے بعد بلاول اچانک متحدہ عرب امارات روانہ ہوگئے ہیں جس کے بعد ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی کہ دونوں باپ بیٹے کے درمیان سیاسی اختلافات شدید ہو گئے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ آصف زرداری صاحبزادے بلاول کو منانے کے لیے دبئی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ آصف زرداری اور بلاول کے درمیان سیاسی نکتۂ نظر کا اختلاف سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر دونوں کے متضاد بیانات سامنے آئے تھے۔

ماضی میں بھی بلاول بھٹو والد سے اختلافات کے باعث بیرون ملک روانہ ہوتے رہے ہیں اور بعض اوقات ان کا بیرونِ ملک قیام کئی ماہ تک محیط رہا ہے۔

آصف زرداری کے انٹرویو کے بعد بلاول بھٹو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پروفائل تصویر تبدیل کر دی اور نئی تصویر میں محترمہ بینظیر بھٹو کو بلاول کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو خیبر پختونخوا میں عوامی رابطہ مہم کے بعد طے شدہ دورے پر دبئی گئے ہیں اور اس ضمن میں پارٹی چیئرمین اور شریک چیئرمین کے درمیان اختلافات کی باتیں بے بنیاد ہیں۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ اقتدار کی سیاست کرنا چاہتے ہیں جب کہ بلاول بھٹو آئین کی پاسداری کے نعرے کے ساتھ عوامی مقبولیت چاہتے ہیں۔

تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ آصف زرداری کے بیان سے بلاول کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اور اس سے پارٹی کارکن اور ووٹرز ابہام کا شکار ہوں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ اختلاف رائے ہوتا ہے اور اسے رہنا چاہیے لینا لیکن اس کا عوامی سطح پر اس انداز میں اظہار پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر نقصان پہنچائے گا۔ان کے خیال میں بلاول بھٹو نے یقینی طور پر والد کے بیان کو اچھا نہیں لیا اور اسی وجہ سے وہ بیرونِ ملک روانہ ہوگئے ہیں۔لیکن ہوسکتا ہے کہ بلاول اس پر کوئی ردِعمل ظاہر نہ کریں۔

مظہر عباس کے مطابق بلاول عوامی طرزِ سیاست اپنانا چاہتے ہیں جب کہ آصف زرداری اقتدار کی سیاست کرتے ہیں لیکن پارٹی پر اس وقت آصف زرداری کی گرفت مضبوط ہے اور بلاول پارٹی قیادت اور سیاسی تجربے کے لحاظ سے کمزور ہیں۔

'باپ بیٹے کی سوچ میں فرق اسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات پر ہے'

صحافی محسن رضا خان کہتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ سے تعلقات کے حوالے سے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان سوچ کا فرق ہے کیوں کہ پارٹی چیئرمین اپنی انتخابی مہم میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں جب کہ سابق صدر اسٹیبلیشمنٹ سے اچھے تعلقات رکھتے ہوئے سیاست کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاول اپنے والد کی پالیسی پر چلنے کو تیار نہیں ہیں لہذا اس بنا پر سوچ کا اختلاف ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ آصف زرداری نے اس بنا پر بلاول بھٹو کو سخت الفاظ میں پیغام دیا ہے اور یہ خیال نہیں رکھا کہ وہ پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

محسن رضا خان نے کہا کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری کے درمیان سوچ کا اختلاف پارٹی اجلاسوں کے بعد اب عوامی سطح پر سامنے آگیا ہے جس سے یقینی طور پر نہ صرف بلاول بلکہ پارٹی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کے خیال میں مختلف سیاسی سوچ رکھنے کے باعث بلاول اور آصف زرداری میں ٹکراؤ ہوتا رہے گا اور وقتی طور پر امکان ہے کہ باپ بیٹا انتخابات کے حوالے سے کسی ایک نقطے پر کھڑے ہوجائیں۔

صحافی شعیب بھٹہ کہتے ہیں کہ ہر باپ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا بیٹا ناپختہ اور زیر تربیت ہے لیکن آصف زرداری کو بلاول سے متعلق یہ بیان دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے تھا کہ بلاول پارٹی کے چیئرمین کے طور پر مختلف سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان کے خیال میں آصف زرداری کا بیان سیاسی طور پر درست نہیں تھا کیوں کہ اس سے صرف بلاول کو ہی نہیں بلکہ آصف زرداری کو بھی سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچے گا۔

شعیب بھٹہ کے مطابق سابق صدر سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ کے بغیر اقتدار میں نہیں آیا جاسکتا جب کہ بلاول طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھتے ہیں۔البتہ باپ بیٹےکے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف خاندانی سطح پر بات چیت سے وقتی طور ختم ہوجائے گا کیوں کہ بلاول اپنے والد کو سیاست سے مائنس نہیں کرسکتے اور بلاول کے بغیر پیپلز پارٹی عوام کو راغب نہیں کرسکتی۔

فورم

XS
SM
MD
LG