ایرانی ریلوے لائن کے لیے مالی اعانت اور تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے جانے کی تقریب کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے ایرانی ہم منصب ابراہیم رئیسی نے بدھ کے روز ویڈیو لنک پر دیکھا۔ یہ بین الاقوامی شمالی-جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور کا ایک حصّہ ہوگی جو ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
رشت-استارا ریلوے کو اس راہداری میں ایک اہم لنک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد بھارت ، ایران، روس، آذربائیجان اور دیگر ممالک کو ریل اور سمندر کے ذریعے مربوط کرنا ہے -اس راستے کے بارے میں روس کا کہنا ہے کہ وہ ایک بڑے عالمی تجارتی راستے کے طور پر نہر سوئیز کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
پوٹن نے کہاکہ منفرد نوعت کی شمالی جنوبی نقل و حمل کی راہداری، رشت-استارا ریلوے، اپنی تکمیل کے بعد عالمی ٹریفک کے بہاؤ کو نمایاں طور پر متنوع بنانے میں مدد کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیرہ کیسپین کے ساحل کے ساتھ 162 کلومیٹر یا 100 میل طویل ریلوے، بحیرہ بالٹک کی روسی بندرگاہوں کو بحر ہند اور خلیج میں ایرانی بندرگاہوں سے جوڑنے میں مدد کرے گی۔
ایرانی صدررئیسی نے کہا کہ بلاشبہ یہ معاہدہ تہران اور ماسکو کے درمیان تعاون کی سمت میں ایک اہم اور اسٹریٹجک قدم ہے۔
روس اور ایران، دونوں پر مغرب کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد ہیں جس کے نتیجے میں دونوں ملک سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں اور اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔
دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ ان پر عائد اقتصادی پابندیاں بلاجواز ہیں۔
ایران روس کو بڑے پیمانے پر بمبار ڈورن فراہم کر چکا ہے جنہیں روس یوکرین کے خلاف حملوں میں استعمال کر رہا ہے۔
1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے جس نے امریکی حمایت یافتہ شاہ محمد رضا پہلوی کو اقتدار سے محروم کر دیا تھا، ایران کو مغرب کی طرف سے الگ تھلگ کر دیا گیا اور اس کی معیشت سخت پابندیوں کی وجہ سے مفلوج ہے۔ جب کہ ایران کے پاس مشرق وسطیٰ کے تیل کے کل ذخائر کا کوئی ایک چوتھائی حصہ ہے۔تاہم اس پر بیرون ملک تیل کی فروخت پر پابندیاں عائد ہیں۔
مغرب نے ایران کے جوہری پروگرام کے سبب، اور روس پر، یوکرین میں اس کے اقدامات کی وجہ سے پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)