اس سال فروری میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس اور چین کے فوجی تعلقات میں مزید قربت دیکھی جارہی ہے جبکہ ایک نئی تحقیق کے مطابق جنگ کا خاتمہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق یوکرین پر حملے کے باوجود چین کا غیر اعلانیہ روس کا ساتھ دینے کا فیصلہ چین اور روس کے فوجی اتحاد کے بارے میں خدشات کو پھر سے بڑھا رہا ہے ۔
تحقیق کے مطابق روس اور چین نے اب تک باضابطہ اتحاد کرنے سے تو گریز کیا ہے لیکن ان دونوں ممالک میں ہتھیاروں کی فروخت اور مشترکہ فوجی مشقوں پر مرکوز گہری فوجی شراکت داری موجود ہے۔
ووسٹوک 22 مشقوں کا انعقاد
روس نے ملک کے مشرق میں "ووسٹوک 22" فوجی مشقیں منعقد کی ہیں۔ روسی میزبانی میں ہونے والی ان مشقوں میں پندرہ ممالک حصہ لے رہے ہیں جن میں چین کو مہمان خصوصی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ مشقوں میں بیلاروس، بھارت اور شام بھی شریک ہیں۔
ماسکو کے مطابق مشقوں میں 50 ہزار فوجی شامل ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والے فوجی سازوسامان کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ خیال رہے کہ برطانوی حکومت نے ان اعداد و شمار پر شک و شہبات کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشقوں میں شامل فوجی اہلکاروں کی صحیح تعداد پندرہ ہزار کے قریب ہے۔
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق چین نے کہا ہے کہ اس نے 31 اگست کو شروع ہونے والی ان مشقوں میں شرکت کے لیے دو ہزار فوجی، 300 فوجی گاڑیاں 21 طیارے اور تین جنگی جہاز بھیجے ہیں۔ یہ مشقیں بدھ کو اختتام پزیر ہو رہی ہیں۔
ادھر روسی وزارت دفاع نے بحر الکاہل کے روسی بحری بیڑے کے ریئر ایڈمرل ویلری کازاکوف کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ روسی بحریہ اور چینی پیپلز لبریشن آرمی کی بحریہ کے درمیان عملی تعان معیار کی ایک نئی سطح کو چھو رہا ہے۔ ایسا ہونا عالمی اور علاقائی استحکام اور سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔
ؕ
سی ایس آئی ایس تھنک ٹینک رپورٹ کے شریک مصنف بونی لِن کہتے ہیں کہ بیجنگ روس کے ساتھ قریبی تعلقات کو آگے بڑھا رہا ہے۔
قریبی تعلقات کی نوعیت
شریک مصنف بونی لِن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ روس اور چین کے فوجی تعلقات دونوں ملکوں کے مجموعی سیاسی تعلقات کا اعادہ کرتے ہیں۔ لہذا جہاں تک چین کی روس کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کا تعلق ہے یہ دو ممالک مزید مشقیں کرتے نظر آئیں گے۔
’’ آپ دیکھیں گے کہ دونوں ممالک اور بھی زیادہ حساس صلاحیتوں کا استعمال کریں گے۔‘‘
رپورٹ ترتیب دینے والے ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگرچہ چین کو روسی ہتھیاروں کی فروخت دونوں ممالک کی شراکت داری کا ایک اہم جزو ہے لیکن دو طرفہ تعلقات میں بہت سے مسائل بھی موجود ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین اپنے کل ہتھیاروں کا تقریباً 70 فیصد روس سے درآمد کرتا ہے۔ لیکن دو ہزار کی دہائی کے وسط تک، چین نے اپنے ہتھیاروں کی مقامی پیداوار پر زیادہ توجہ دینا شروع کی۔ نتیجتاً اب چین ، روس پرانحصار کم کرتاہے۔
چین کی ٹیکنالوجی کی مبینہ چوری
سی ایس آئی ایس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کی جانب سے ٹیکنالوجی کی مبینہ چوری کا روس میں نوٹس لیا گیا ہے۔
سن 2019 میں روس کی سرکاری دفاعی کمپنی نے الزام لگایا تھا کہ پچھلے 17 برسوں میں اس کے بنائے گئے سازو سامان کی غیر قانونی طور پر نقل کرنے کے 500 واقعات ہوئے ہیں۔
ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے کمپنی نےکھلے بندوں چین پر تنقید کی اور کہا کہ چین نے ہی ہوائی جہاز کے انجن سخوئی طیاروں، ڈیک جیٹس، دفاعی فضائی نظام، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جانے والے ہوائی دفاعی میزائیل، زمین سے فضا میں مار کرنے والے درمیانے فاصلے کے نظام پینٹسیر کی نقلیں شامل ہیں۔
تائیوان اور یوکرین
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مشکلات کے باوجود بھی بیجنگ ماسکو کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرنے کا خواہاں ہے۔
رپورٹ کے شریک مصنف لِن کہتے ہیں کہ یو کرین پر روسی حملے کے بعدآمریت بمقابلہ جمہوریت کے تصور میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ چین کو روس کے بہت قریب دیکھا جا رہا ہے اور ممکنہ طور پر چین کو روس کی طرح ایک جارح کے طور پر دیکھا جارہا ہے
لِن یہ بھی کہتے ہیں کہ چین اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسے روس کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ بیجنگ سمجھتا ہے کہ آگے چل کر مستقبل میں چین کو بھی روس جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین کی طرف سے خود مختار جزیرے کے قریب کی کئی لائیو فائر مشقوں کے تناظر میں چین اور مغربی ممالک میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ چین کا دعوی ہے کہ تائیوان اس کی سرزمین کا حصہ ہے۔
لِن نے بتایا کہ صورت حال کچھ یوں ہے کہ بیجنگ بہت حد تک آئینے میں وہی کچھ دیکھ رہا ہے جس کا روس کو مغرب اور نیٹو اتحاد کے ساتھ تعلقات میں سامنا کرنا پڑا۔ یعنی کہ چین اپنے آپ کو انڈو پیسیفک خطے میں امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں روس جیسی صورت حال کا سامنا کرتا ہوا دیکھ رہا ہے۔
لِن کہتے ہیں کہ اگرچہ روس اور چین نے کسی رسمی فوجی اتحاد پر دستخط نہیں کیے ہیں، لیکن مغرب کو بڑھتے ہوئے فوجی اور سیاسی تعلقات سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
تاہم انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ چین کے اپنے کسی پڑوسی کے ساتھ تنازع کی صورت میں روس اپنی فوج بھیجے گا - لیکن ماسکو چین کی انٹیلی جنس اور سیاسی مدد کر سکتا ہے۔
چین روس سے آگے نکل گیا ہے
سی ایس آئی ایس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کی عسکری صلاحیتیں روس کی صلاحیتوں کے برابر آرہی ہیں یا وہ ماسکو سے آگے نکل رہا ہے۔ ایک ایسے تناظر میں جبکہ یوکرین پر روس کی پیش قدمی رک گئی ہے، رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ میدان جنگ میں روس کی ناکامی کی صورت میں بیجنگ ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبورہو سکتا ہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ اگر ’’چین اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یوکرین میں روس کی کارکردگی بہت خراب رہی ہے تو چین روس کے ساتھ مشترکہ مشقوں اور حتی کہ روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کی مجموعی اہمیت پر نظر ثانی کر سکتا ہے‘‘۔
(اس خبر میں شامل مواد رائٹرز نیوز ایجنسی سے لیا گیا ہے)