چین نے منگل کو تائیوان کی سیاسی شخصیات پر ویزوں کے اجرا سمیت کئی پابندیاں عائد کر دیں کیونکہ بیجنگ امریکی کانگریس کے اراکین کے لگا تار دوروں کے جواب میں خود مختار جزیرے اور امریکہ پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان پابندیوں کا اعلان چین کی جانب سے تائیوان کے آس پاس مزیدسمندری اور فضائی فوجی مشقوں کے اعلان کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس نے فوجی مشقوں کا فیصلہ امریکہ اور تائیوان کے درمیان مبینہ "ملی بھگت اور اشتعال انگیزی" کے جواب میں کیا ہے۔
البتہ چین نے نئی مشقوں کے وقت اور پیمانے کے متعلق ابھی تک کچھ نہیں بتایا ہے۔
خیال رہے کہ چین نے تازہ ترین اقدامات کا اعلان اس روز کیا ہے جب امریکی کانگریس کے ایک وفد نے تائیوان کی صدر سائی انگ وین سے ملاقات کی۔ امریکی قانون سازوں کے وفد کا یہ دورہ حال ہی میں ہونے والے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورے کے بعد ہو رہا ہے۔ نینسی پلوسی گزشتہ 25 سالوں میں تائیوان کا دورہ کرنے والی امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین رکن ہیں۔
چینی حکومت تائیوان کے غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے باضابطہ رابطے پر اعتراض کرتی ہے کیونکہ وہ تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتی ہے۔ بیجنگ کی جانب سے دھمکی آمیز رویے کو اس جزیرے پر چین کی جانب سے فوجی طاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کے خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اسپیکر پلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد چین نے دو ہفتے تک دھمکی آمیز فوجی مشقیں کیں۔ ان مشقوں میں جزیرے پر میزائل داغنا اور آبنائے تائیوان کی مڈلائن پر بحریہ کے جہازوں اور جنگی طیاروں کی دراندازی شامل تھی۔ یاد رہے کہ آبنائے تائیوان طویل عرصے سے چین اور تائیوان کے درمیان ایک بفر کا مقام رہا ہے۔
ادھر واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ چین نے اس ماہ کے شروع میں تائیوان کا دورہ کرنے والے کانگریسی وفد پر اشتعال انگیز اور مکمل طور پر غیر ضروری ردعمل ظاہر کیا ہے۔
تازہ ترین چینی پابندیوں کا اہداف بننے والی شخصیات میں امریکہ میں تائیوان کے ڈی فیکٹو سفیر بِی کھِم سیاؤ، اور قانون ساز کیر چِین مِنگ، کُو لیہِسُونگ سائی چی-چانگ، چن جیاؤ ہوا اور وانگ ٹنگ یو اور کارکن لن فی-فین شامل ہیں۔
حکمران کمیونسٹ پارٹی کے تائیوان دفتر کے مطابق ان افراد پر پابندیوں کے نتیجے میں انہیں سرزمین چین، ہانگ کانگ اور مکاؤ کا سفر کرنے اور چینی سرزمین پر لوگوں اور اداروں کے ساتھ مالی یا ذاتی روابط رکھنے پر پابندی ہو گی۔
چین کی سرکاری خبر رساں یجنسی سہنوا نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد تائیوان کی آزادی کی حمایت کرنے والے "سخت گیر عناصر" سمجھے جانے والوں کو مکمل سزا دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
سہنوا کی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم سو سینگ چانگ، مقننہ کے رہنما یو سی کن اور وزیر خارجہ جوزف وو پہلے ہی چین کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہیں اور اب انہیں مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق چین تائیوان پر کوئی قانونی اختیار نہیں رکھتا اور یہ واضح نہیں ہے کہ تائیوان کی شخصیات پر عائد کی گئی نئی پابندیوں کا کیا اثر پڑے گا۔ چین نے تائیوان کی حکومت کے ساتھ 2016 کے انتخابات کے فوراً بعد سے تمام رابطے رکھنے سے انکار کر دیا تھا۔ سن 2020 میں تائیوان کی حکومت بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب ہوئی تھی۔
تائیوان کی وزارت خارجہ نے کانگریس کے حالیہ دورے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ آمریت پسند چین یہ حکم نہیں دے سکتا کہ تائیوان کیسے اپنے دوست بناتا ہے، کیسے اپنے لیے حمایت حاصل کرتا ہے، لچکدار رہتا ہے اور آزادی کے لیے روشنی کی طرح چمکتا ہے۔"
تائیوانی صدر سائی کی آزادی کی حامی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی مقننہ کو بھی کنٹرول کرتی ہے، اور تائیوان کی اکثریت فریقین کے درمیان مضبوط معاشی اور سماجی روابط کے درمیان ڈی فیکٹو آزادی کی حالت کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔
چین امریکہ پر ہتھیاروں کی فروخت اور امریکی سیاست دانوں اور جزیرے کی حکومت کے درمیان رابطوں کے ذریعے جزیرے کی آزادی کی حوصلہ افزائی کرنے کا الزام لگاتا ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور اس کے جزیرے کے کوئی رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ کہ دونوں فریقوں کو اپنا تنازعہ پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ قانونی طور پر اس بات کا پابند ہے کہ جزیرہ کسی بھی حملے کے خلاف اپنا دفاع کر سکے۔
تائیوان نے اپنی فوج کو چوکنا کر دیا ہے لیکن اس نے چینی اقدامات کے خلاف کوئی بڑا جوابی اقدام نہیں کیا۔ اس بات کی عکاسی عوام میں پائے جانے والے سکوت اور اس ابہام سے ہوتی ہے جو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چین کے حملے کے خطرات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
تاہم تائیوان کی وزارت دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اس کی فضائیہ اور زمین سے فضا میں مار کرنے والی میزائلوں کی مشقیں ہفتے کے آخر میں منعقد کی جائیں گی۔
(خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)