ایسے میں جب امریکہ کے ساتھ چین کے تعلقات کشیدہ ہیں، چین کے صدر شی جن پنگ روس کے سہ روزہ دورے پر ماسکو پہنچے ہیں۔ دورے کا مقصد روس چین تعاون اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کو اجاگر کرنا ہے۔
روسی رہنما کے بارے میں شی نے کہا ہے کہ ’’گذشتہ چھ برس کے دوران ہم تقریباً 30 بار ملاقات کر چکے ہیں‘‘۔
شی نے مزید کہا کہ ’’روس وہ ملک ہے جس کا میں نے کافی مرتبہ دورہ کیا ہے جب کہ صدر پوٹن میرے بہترین دوست اور ساتھی ہیں‘‘۔
یہ دورہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کی سترویں سالگرہ کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ دونوں سربراہان کو شکوہ ہے کہ ان کے ساتھ امریکہ کا انداز مناسب نہیں، جس نے 2014ء سے روس کے خلاف تعزیرات عائد کر رکھی ہیں، جب کہ وہ اِن دِنوں چین کے ساتھ تجارتی لڑائی میں مصروف ہے۔
میخائل کوروستیکوف روزنامہ ’کامرسنٹ‘ کے ایشا پیسیفک کے مبصر ہیں۔ پوٹن اور شی کی ذاتی قربت کے بارے میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’عموماً لوگ ان مقامات کی طرف جایا کرتے ہیں جہاں انھیں پسند کیا جاتا ہے۔ لیکن، امریکہ کے ساتھ تنازع جس کا دونوں ملکوں کو سامنا ہے، دونوں ہی کو ایک دوسرے کے قریب لا کھڑا کیا ہے‘‘۔
فوجی تعلقات
امریکہ کے خلاف برہمی کے علاوہ، عالمی سیکورٹی کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یکساں ہے۔ اسی بنا پر دونوں روس چین تعلقات میں حائل بداعتمادی پر حاوی پا چکے ہیں، جو اس سے قبل کمیونسٹ نظریے اور سرحدی تنازعات کے معاملے پر مختلف الخیالی کا شکار تھے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، گذشتہ سال روس کے مشرقِ بعید میں چین کے 3200 فوجیوں نے 300000 روسی فوج کے ساتھ ’ووسٹک‘میں 2018ء میں بڑی سطح کی فوجی تربیتی مشق میں حصہ لیا تھا۔
شام، شمالی کوریا اور ایران جیسے گنجلک معاملات پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس اور چین کی قربت عالمی توازن کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بدھ کے روز شی سے ملاقات کے بعد پوٹن نے اِسی بات کی جانب دھیان مبذول کرایا۔
روسی رہنما نے کہا کہ ’’اہم بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر گفتگو کے دوران، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ زیادہ تر شعبہ جات میں روس اور چین کے خیالات میں اتفاق رائے ہے یا سوچ ایک دوسرے کے قریب تر ہے‘‘۔
ساتھ ہی، رفتہ رفتہ، ان کی معیشتیں بھی ایک جیسی ہی ہیں۔
روسی محور
سال 2014ء میں روس کی جانب سے کرائیمیا کو ضم کرنے کی پاداش میں مغربی ملکوں نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کیں، پوٹن نے اعلان کیا تھا کہ روس اپنی معیشت کا محور ایشیا کی جانب پلٹ دے گا۔
اب روسی حکام چین کے ساتھ سالانہ 100 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدوں کا ذکر کرتے ہیں، جس کے بعد چین روس کا چوٹی کا تجارتی ساجھے دار بن چکا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ روس نے طوفان کا مقابلہ خوبی کے ساتھ کر لیا ہے۔ چین کی فہرست میں روس محض دسویں نمبر پر ہے، جب کہ امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔
جمعے کے روز شی اور پوٹن سینٹ پیٹرزبرگ کے سالانہ اقتصادی فورم میں شریک ہوں گے۔ اس موقع پر چین کا وفد 1000 افراد پر مشتمل ہوگا، جب کہ ماسکو میں ایک امریکی کاروباری شخص کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے امریکی سفیر جان ہنٹسمن نے تقریب کا بائیکاٹ کیا ہے۔