واشنگٹن —
روس نے یوکرین کے نیم خود مختار علاقے کریمیا میں فوجی مداخلت کا دفاع کرتے ہوئے مغربی ملکوں کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو مسترد کردیا ہے۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاورورف نے پیر کو کہا ہے کہ کریمیا کی سیاسی صورتِ حال معمول پر آنے تک وہاں روسی فوجی دستوں کی موجودگی ضروری ہے۔
جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لاوروف نے دعویٰ کیا کہ روسی فوجی دستے کریمیا میں موجود روسی شہریوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
دریں اثنا روسی وزارتِ خارجہ نے آٹھ بڑے صنعتی ممالک کی تنظیم 'ڈی-8' میں شامل مغربی ملکوں کی جانب سے تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل ہونے والی بات چیت ملتوی کرنے پر سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
مذکورہ اجلاس حال ہی میں ختم ہونے والے سرمائی اولمپکس کے میزبان روسی شہر سوچی میں ہونا تھا جہاں رواں سال جون میں تنظیم کا سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوگا۔
تاہم امریکہ سمیت تنظیم کے یورپی ارکان نے یوکرائن میں روس کی فوجی مداخلت پر بطورِ احتجاج رواں ہفتے ہونے والی بات چیت منسوخ کردی تھی۔
روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سربراہی اجلاس کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت منسوخ کرنے کی "کوئی بنیاد نہیں" اور اس عمل سے نہ صرف 'جی-8' کے رکن ملک بلکہ پوری عالمی برادری متاثر ہوگی۔
یوکرین نے روس پر فوجی حملہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ماسکو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کے نیم خودمختار علاقے کریمیا سے اپنی فوج واپس بلائے۔
اطلاعات ہیں کہ اب تک کئی ہزار روسی فوجی کریمیا میں داخل ہوچکے ہیں جنہوں نے اہم تنصیبات اور ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھالنے کے علاوہ علاقے میں موجود یوکرائنی فوج کی چھاؤنیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
روس کی اس فوجی مداخلت کے جواب میں یوکرین کی حکومت نے بھی اپنی فوجوں کو انتہائی 'الرٹ' رہنے کے حکم دیا ہے۔
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے جنگی طیاروں نے اتوار کی شب یوکرین کی فضائی حدود میں پروازیں کیں جن کا سلسلہ پیر کو بھی جاری رہا۔
اس سے قبل روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک دوسرے بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرین کے معاملے پر روس اور چین کے خیالات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
بیان کے مطابق روسی وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے پیر کو اپنی چینی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے یوکرین میں جاری سیاسی بحران سے آگاہ کیا تھا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک تنازع سیاسی انداز سے حل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
یوکرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے برطانیہ کےوزیرِ خارجہ ولیم ہیگ پیر کو دارالحکومت کیو پہنچے ہیں جہاں انہوں نے عبوری حکومت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری بھی منگل کو یوکرین پہنچ رہے ہیں جب کہ اقوامِ متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جان ایلیسن بھی کیو پہنچ گئے ہیں جہاں وہ تنازع کے حل کی کوششوں میں مدد دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے یوکرین اور روس دونوں کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے اور تنازع کا پر امن حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کریں۔
جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ وہ بحران کے خاتمے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے روس کے صدر پیوٹن کے علاوہ کئی عالمی رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔
روس کے وزیرِ خارجہ سرجئی لاورورف نے پیر کو کہا ہے کہ کریمیا کی سیاسی صورتِ حال معمول پر آنے تک وہاں روسی فوجی دستوں کی موجودگی ضروری ہے۔
جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جناب لاوروف نے دعویٰ کیا کہ روسی فوجی دستے کریمیا میں موجود روسی شہریوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
دریں اثنا روسی وزارتِ خارجہ نے آٹھ بڑے صنعتی ممالک کی تنظیم 'ڈی-8' میں شامل مغربی ملکوں کی جانب سے تنظیم کے سربراہی اجلاس سے قبل ہونے والی بات چیت ملتوی کرنے پر سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
مذکورہ اجلاس حال ہی میں ختم ہونے والے سرمائی اولمپکس کے میزبان روسی شہر سوچی میں ہونا تھا جہاں رواں سال جون میں تنظیم کا سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوگا۔
تاہم امریکہ سمیت تنظیم کے یورپی ارکان نے یوکرائن میں روس کی فوجی مداخلت پر بطورِ احتجاج رواں ہفتے ہونے والی بات چیت منسوخ کردی تھی۔
روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ سربراہی اجلاس کی تیاری کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت منسوخ کرنے کی "کوئی بنیاد نہیں" اور اس عمل سے نہ صرف 'جی-8' کے رکن ملک بلکہ پوری عالمی برادری متاثر ہوگی۔
یوکرین نے روس پر فوجی حملہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ماسکو حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کے نیم خودمختار علاقے کریمیا سے اپنی فوج واپس بلائے۔
اطلاعات ہیں کہ اب تک کئی ہزار روسی فوجی کریمیا میں داخل ہوچکے ہیں جنہوں نے اہم تنصیبات اور ہوائی اڈوں کا کنٹرول سنبھالنے کے علاوہ علاقے میں موجود یوکرائنی فوج کی چھاؤنیوں کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
روس کی اس فوجی مداخلت کے جواب میں یوکرین کی حکومت نے بھی اپنی فوجوں کو انتہائی 'الرٹ' رہنے کے حکم دیا ہے۔
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے جنگی طیاروں نے اتوار کی شب یوکرین کی فضائی حدود میں پروازیں کیں جن کا سلسلہ پیر کو بھی جاری رہا۔
اس سے قبل روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک دوسرے بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یوکرین کے معاملے پر روس اور چین کے خیالات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
بیان کے مطابق روسی وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف نے پیر کو اپنی چینی ہم منصب کو ٹیلی فون کرکے یوکرین میں جاری سیاسی بحران سے آگاہ کیا تھا۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کا ملک تنازع سیاسی انداز سے حل ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
یوکرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے برطانیہ کےوزیرِ خارجہ ولیم ہیگ پیر کو دارالحکومت کیو پہنچے ہیں جہاں انہوں نے عبوری حکومت کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری بھی منگل کو یوکرین پہنچ رہے ہیں جب کہ اقوامِ متحدہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل جان ایلیسن بھی کیو پہنچ گئے ہیں جہاں وہ تنازع کے حل کی کوششوں میں مدد دیں گے۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے یوکرین اور روس دونوں کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے اور تنازع کا پر امن حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کریں۔
جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ وہ بحران کے خاتمے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر کوشش کر رہے ہیں اور انہوں نے روس کے صدر پیوٹن کے علاوہ کئی عالمی رہنماؤں سے بھی بات چیت کی ہے۔