روسی صدر دمتری میدویدف نے کہا ہے کہ گزشتہ سالوں میں اُن کے ملک اور امریکہ نے مثبت تعلقات استوار کرنے کی کوششوں میں نمایاں پیش رفت کی ہے اور اُنھیں امید ہے کہ ”انتہائی حساس“ معاملات بشمول یورپ کو ممکنہ میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دفاعی ڈھال کے قیام پر بالآخر اتفاق ہو جائے گا۔
فرانس کے سیاحتی مقام ڈیوول میں جمعرات کو اپنے امریکی ہم منصب براک اوباما سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ دفاعی نظام کا یہ تنازع 2020ء تک حل ہو سکتا ہے۔ ’’لیکن ہم اس وقت دوسرے سیاسی سرگرمیوں کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔‘‘
امریکہ کا کہنا ہے کہ میزائل شکن دفاعی ڈھال کا مقصد ایران اور شمالی کوریا جیسے ملکوں کی طرف سے ممکنہ حملوں کو ناکام بنانا ہے اور یہ روس کے خلاف نہیں ہے۔ اس نظام کے تحت رومانیہ میں میزائلوں کی تنصیب پر معاہدے پر روس نے یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ مستقبل میں یہ اُس کے جوہری دفاع کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
نیوز کانفرنس سے خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ دمتری میدویدف سے بات چیت میں دفاعی نظام کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ اُنھوں نے کہا کہ دونوں ملک مل کر ایک ایسا لائحہ عمل تلاش کرنے کے عزم پر قائم ہیں جو دونوں ملکوں کی سلامتی کی ضروریات سے مطابقت رکھتا ہو۔
اس موقع پر امریکی اور روسی رہنماؤں نے ایک دوسرے کو ’’دوست اور حلیف‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے روابط ماضی کے برعکس نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
مزید برآں امریکی صدر نے کہا کہ روس کی عالمی تنظیم برائے تجارت ’ڈبلیو ٹی او‘ میں شمولیت ناصرف دونوں ملکوں بلکہ عالمی معیشت کے لیے مفید ثابت ہو گی۔ دمتری میدویدف کا کہنا تھا کہ اُنھیں امید ہے کہ آخر کار یہ عمل مکمل کر لیا جائے گا تاہم اُنھوں نے مزید تفصیل کا ذکر نہیں کیا۔
دونوں رہنماؤں نے جوہری ٹیکنالوجی کے غیرقانونی پھیلاؤ، انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے، انسداد دہشت گردی، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جاری سیاسی بے چینی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔