2010ء میں نیٹو نے اپنے نئے اسٹریٹیجک تصور کا خاکہ پیش کیا جس میں سائبر سکیورٹی اور میزائل شکن دفاعی نظام جیسے نئے چیلنجوں سے نمٹنا شامل ہے۔ ۔شاید اس سال کے دوران نیٹو کا سب سے اہم کارنامہ یہ تھا کہ اس نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کیا۔نومبر میں لزبن میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں ، سیکرٹری جنرل اینڈرز فوگ راسموسن نے بتایا کہ افغانستان میں نیٹو اور روس کس طرح مِل جْل کر کام کریں گے۔
انھوں نے کہا ”روس نیٹو کے زیادہ سازو سامان کو روسی علاقے سے گزر کر افغانستان میں ہمارے مشن کی مدد کے لیے آنے کے اجازت دے گا۔ اب ہم مشینیں اور آلات بھی لا سکیں گے۔ ہم افغانستان سے اور علاقے سے، انسدادِ منشیات کے عملے کی تربیت میں اضافہ کریں گے۔“
افغانستان اب بھی نیٹو کے لیے اہم ترجیح ہے۔ وہاں نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں اور اس نے ملک کو بچانے کے لیے کئی برس لگائے ہیں۔
لندن میں قائم سکیورٹی پر تحقیق کرنے والی تنظیم، رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کلارک مائیکل کہتے ہیں کہ اب سے لے کر 2014-15ء تک نیٹو کے سامنے یہی سب سے بڑا کام ہو گا۔ یہ بات اہم ہے کہ مغربی ملکوں کی پالیسی پر افغانستان میں عمل درآمد میں نیٹو موثر اور کامیاب نظر آئے۔
نیٹو کی توسیع اور میزائل کے دفاعی نظام کے بارے میں اختلافات کی وجہ سے روس کے ساتھ نیٹو کے تعلقات میں رکاوٹ پڑتی رہی تھی۔ نیٹو کی توسیع تو فی الحال رکی ہوئی ہے، اور لزبن میں نیٹو نے روس کو دعوت دی کہ وہ میزائل کی دفاعی ڈھال کی تعمیر میں شامل ہو جائے۔
راسموسن کے مطابق ”تاریخ میں پہلی بار، نیٹو کے ملک اور روس اپنے دفاع کے لیے تعاون کریں گے۔ روس کو بلا شبہ معلوم ہو جائے گا کہ میزائل کا دفاعی نظام اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ یور پ میں ہمارے شہریوں کو بہتر تحفظ کا جو احساس ہو گا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔“
لیکن دسمبر میں اپنے ملک کے لوگوں کے نام سالانہ خطاب میں، روس کے صدر دمتری مدودیو نے انتباہ کیا کہ اگر روس کو یہ احساس ہوا کہ وہ میزائل کے دفاعی نظام میں یورپ اور امریکہ کے ساتھ برابر کا شراکت دار نہیں ہے، تو ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہو جائے گی۔
روایتی طور پر نیٹو کا فوجی رول، اس کے نئے اسٹریٹیجک تصور کا صرف ایک حصہ ہے۔ ایک اور قابل ِتوجہ شعبہ سائبر سکیورٹی کا ہے۔
کلارک مائیکل کا کہنا ہے ”نیٹو کو خود اپنے آس پاس کے علاقوں میں جن چیزوں پر توجہ دینی پڑے گی وہ ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں۔ چنانچہ نیٹو کو کہیں زیادہ چوکنا رہنا پڑے گا، اور اسے یہ طے کرنے کے لیے کہ اپنی فورسز اور اپنی کوششوں کو کہاں لگایا جائے، زیادہ دور اندیشی اور سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔“
دسمبر میں، نیٹو کے سب سے بڑے رکن، امریکہ نے افغانستان کی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ صدر اوباما نے کہا ”بہت سے مقامات پر ہم نے جو پیش رفت کی ہے وہ اب بھی کمزور ہے اور حالات پھر پرانی ڈگر پر واپس جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم زیادہ علاقوں کو طالبان کے کنٹرول سے آزاد کر ا رہے ہیں اور زیادہ افغان اپنی بستیوں کو واپس لے رہے ہیں۔“
اب جب کہ یہ سال ختم ہونے والا ہے، افغانستان میں پیش رفت کی ناپائیداری ظاہر ہو رہی ہے، جہاں اتحادی فورسز مسلسل عسکریت پسندوں سے جنگ کر رہی ہیں۔ افغانستان چھوڑنے کے لیے نیٹو نے جو حکمت عملی بنائی ہے، اس میں افغان فورسز کو تربیت دینا بنیادی اہمیت کا حامل ہے تا کہ وہ خود اپنے ملک کو سنبھال سکیں۔