روسی، فرانسیسی اور امریکی رہنما یوکرین میں جنگ کے بارے میں اپنے موقف کی حمایت میں سبقت حاصل کرنے کے لیے افریقہ کا رخ کر رہے ہیں، اور کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ سرد جنگ کے بعد سے اس براعظم پر اثر و رسوخ بڑھانےکی سب ایک بڑی دوڑ میں شامل ہیں۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لافروف اورفرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اس ہفتے کئی افریقی ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی یعنی یو ایس ایڈ کی سربراہ سمانتھا پاور گزشتہ ہفتے کینیا اور صومالیہ کے دورے پر تھیں۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ اگلے ہفتے گھانا اور یوگنڈا جائیں گی۔
گڈ گورننس کو فروغ دینے والی فاؤنڈیشن ڈیموکریسی ورکس کے ڈائریکٹر ولیم گومیڈ نے کہا" ایسا لگتا ہے جیسے افریقہ میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہو رہی ہے، جہاں متحارب فریق اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
لاوروف نے پورے براعظم افریقہ کے اپنے سفر میں جہاں بہت سے ممالک خشک سالی اور بھوک کا شکار ہیں، مغرب کوولن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جب کہ مغربی رہنماؤں نے کریملن پر الزام لگایا ہے کہ وہ خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اورفتح حاصل کرنے کے سامراجی جنگ لڑ رہا ہے۔
صدر ولادیمیر پوٹن کے زیر قیادت، روس کئی سالوں سے افریقہ میں حمایت حاصل کرنے کے لیے کام کر رہا ہےاور نصف صدی پرانی دوستی کو از سر نو تقویت بخش رہا ہے، جب سوویت یونین نے نوآبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے لیے لڑنے والی بہت سی افریقی تحریکوں کی حمایت کی۔
افریقہ میں ماسکو کا اثرمارچ میں یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے دوران ظاہر ہوا تھا۔ اس وقت 28 افریقی ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ براعظم کے پچیس ملکوں نے اس قرار داد پر چپ سادھ لی۔
روس کے اعلیٰ سفارت کار نے اس ہفتے مصر، کانگو، یوگنڈا اور ایتھوپیا کا بھی دورہ کیا، دوستی اور امداد کے وعدوں کے ساتھ انہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ خوراک کی قیمتیں بڑھانے ذمّہ دار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کووڈ نائنٹین کی عالمی وبا کے زمانے میں انہوں نے خوراک کا ذخیرہ کر لیا۔
لاوروف نے ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا میں کہا کہ "یوکرین کی صورتحال نے خوراک کی منڈیوں پر بھی منفی اثر ڈالا، مگر اس کی وجہ روسی خصوصی آپریشن نہیں ہے بلکہ مغرب کی جانب سے پابندیاں لگا کر انتہائی نامناسب ردعمل تھا۔"
لاوروف کا یوگنڈا میں پرتپاک استقبال کیا گیا ۔صدر یووری میوزیوینی برسوں سے امریکی اتحادی رہے ہیں لیکن انہوں نےیوکرین پر روس کے حملے پر تنقید کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ میوزیوینی نے جنگ شروع ہونے پر یہاں تک کہا کہ پوٹن کے اقدامات قابل فہم ہوسکتے ہیں کیونکہ یوکرین روس کے اثر و رسوخ کے دائرے میں ہے۔
روس اپنے سرکاری ٹیلی ویژن نیٹ ورک، آر ٹی (RT) کے ذریعے،جسے رشیا ٹوڈے بھی کہا جاتا ہے، افریقی عوام کی رائے بھی پیش کر رہا ہے، چینل نے اعلان کیا ہے کہ وہ جوہانسبرگ میں ایک نیا بیورو کھولے گا۔
یورپی یونین اور مغرب کی جانب سے روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بعد مارچ میں جوہانسبرگ میں قائم ملٹی چوائس افریقہ میں افریقہ کے سب سے بڑے پے-ٹی وی پلیٹ فارم سے RT کو اچانک ہٹا دیا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نئے بیورو کا قیام RT کو ملٹی چوائس کے ذریعے افریقہ میں نشریات دوبارہ شروع کرنے کے قابل بنائے گا یا نہیں۔
جنوبی افریقہ کی یونیورسٹی آف وٹ واٹرسرینڈ میں صحافت کے پروفیسر اینٹن ہاربر نے کہا کہ "روس کے لیے، یہ افریقہ میں سمعی اور بصری جنگ ہے جس کا براہ راست تعلق میدانِ جنگ نہیں بلکہ ان کے طویل مدتی سیاسی اثر و رسوخ سے ہے۔‘ "وہ افریقہ کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے زرخیز زمین کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اقوام متحدہ میں اس کے ووٹوں کی تعداد بھی اہمیت رکھتی ہے۔"
دوسری طرف افریقہ کے اپنے دورے پر، فرانس کے میکرون نے کریملن پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کی حمایت میں پروپیگنڈا کرنے کے لیے RT جیسے ٹی وی چینلز کا استعمال کر رہا ہے۔ اور اس نے کریملن پر یوکرین سے اناج کی برآمد کو ناکام بنا کر دنیا کو بلیک میل کرنے کا الزام لگایا۔
میکرون نے افریقیوں سے روس کی مخلافت کرنے کی اپیل کی۔
یو ایس ایڈ کی منتظمہ اعلیٰ سمانتھا پاور مشرقی افریقہ کے دورے پر تھیں جہاں انہوں نے خطے میں بھوک کے خلاف جنگ میں مدد کا وعدہ کیا۔ اس دوران انہوں نے روس کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ "یوکرین کی اناج کی برآمدات کو روک کر اور اپنی کھاد کی تجارت کو محدود کرکے، پوٹن نے کینیا کے لوگوں اور پوری دنیا کے دیگر ممالک کو مصیبت یں ڈال دیا ہے۔"
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)