رسائی کے لنکس

پوٹن کا دورۂ نئی دہلی: روس دفاع کے میدان میں بھارت کی کس طرح مدد کرے گا؟


روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے دورۂ بھارت کے دوران ماسکو اور نئی دہلی کے درمیان تجارت، دفاع اور اسلحے کی خریداری سمیت متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ روس بھارت کو چھ لاکھ کلاشنکوف رائفلز کی تیاری میں بھی مدد دے گا۔

روس کے صدر پوٹن پیر کو بھارت کے دورے پر نئی دہلی پہنچے تھے جہاں اُنہوں نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کی۔ دورے کے دوران روس کے وزیرِ خارجہ اور دفاع بھی روسی صدر کے ہمراہ تھے۔

روس اور بھارت نے دفاعی اور تیکنیکی تعاون کو 2031 تک وسعت دینے اور باہمی تجارت کے حجم کو 2025 تک 30 ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق کیا ہے۔

روس کے صدر ایسے موقع پر بھارت کے دورے پر ہیں جب امریکہ اور روس کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے اور بھارت کی جانب سے روسی ساختہ ایس 400 میزائل کی خریداری پر امریکہ نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

پیر کو پوٹن، مودی ملاقات کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں دونوں ممالک نے دفاعی تعاون کو فروغ دینے اور اسلحے کی مشترکہ پیداوار پر بھی اتفاق کیا ہے۔

دفاعی معاہدے کے تحت بھارت کو اے کے 203 اسالٹ رائفلز کی تیاری میں مدد دینے سمیت روس نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت کو ایس 400 ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے۔

نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق وزیرِ اعظم مودی نے ولادی میر پوٹن سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ عالمی سطح پر متعدد بنیادی تبدیلیوں کے باوجود بھارت روس دوستی برقرار ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے حساس معاملات پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کیا ہے۔

صدر پوٹن نے بھارت کو عظیم طاقت اور وقت کی کسوٹی پر کھرا اترنے والا دوست قرار دیا۔

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے مخالفت کے باوجود بھارت اور روس کے درمیان ایس۔400 میزائل نظام کے سودے پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بات چیت کے دوران روس کی جانب سے انڈو پیسفک اسٹریٹجی اور آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل گروپ آکس کے سلسلے میں بھی گفتگو ہوئی۔

بھارت کے خارجہ سیکریٹری ہرش شرنگلا نے ایس۔400 میزائل نظام کی خرید اور اس پر امریکہ کی تشویش کے سلسلے میں کہا کہ بھارت اور روس کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی ہے اور اس حوالے سے ہمیں کسی دوسرے ملک سے اپنے رشتوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کے دوران امریکی قانون کاونٹرنگ امیرکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ (کاٹسا) کے سلسلے کوئی بات نہیں ہوئی۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ ہرش وردھن کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے 28 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔

اُن کے بقول ان معاہدوں میں اسٹیل، جہاز سازی، کوئلے اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بھی شامل ہے۔

بھارتی وزیرِ خارجہ نے تصدیق کی کہ بھارت کی جانب سے ایس 400 میزائل کی خریداری کے کنٹریکٹ پر بھی عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور رواں ماہ سے ایس 400 میزائل سسٹم کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور یہ جاری و ساری رہے گا۔

خیال رہے کہ امریکہ اپنے شراکت داروں پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ روسی ساختہ ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے سے گریز کریں۔ ترکی کی جانب سے یہ میزائل سسٹم خریدنے پر امریکہ نے ترکی پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے ایف 35 طیارے فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

امریکہ کو یہ اعتراض ہے کہ روس کا ایس 400 میزائل سسٹم، نیٹو اتحاد کی ٹیکنالوجی سے مطابقت نہیں رکھتا جس سے لامحالہ نیٹو کے رُکن ممالک کی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

ترکی نے جب اس نظام کو روس سے خریدا تھا تو امریکہ نے اپنے قانون 'کاؤنٹرنگ امیرکاز ایڈورسریز تھرو سینکشنز ایکٹ' (کاٹسا) کے تحت اس پر ایف۔35 فائٹر جیٹ پروگرام خریدنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

البتہ بھارت کا امریکہ سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس معاملے پر اسے استثنیٰ دے کیوں کہ اسے خطے میں چین سے خطرہ لاحق ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 23 نومبر کو اپنی پریس بریفنگ میں کہا تھا کہ امریکہ نے اپنے تمام حلیفوں اور شراکت داروں سے کہا ہے کہ وہ روس کے ایس۔400 میزائل نظام کو فراموش کر دیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے میں بھارت کو پابندی سے چھوٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے سینئر تجزیہ کار اجے کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت نے اپنی ضرورتوں کے تحت روس سے ایس۔400 میزائل نظام خریدا ہے۔ چین کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھی اس کی ضرورت تھی۔ اگر بھارت روس سے اس نظام کو نہیں خریدتا تو اسے یا تو اسرائیل یا پھر امریکہ سے اسے خریدنا پڑتا۔ البتہ اس صورت میں بھارت کا دفاعی بجٹ تین گنا بڑھ جاتا۔

انھوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے اس میزائل نظام کی خریداری پر امریکہ نے تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اس معاملے پر بھارت کو پابندی سے چھوٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

ان کے خیال میں بھارت نے اس معاملے میں ایک خطرہ مول لیا ہے۔ لہٰذا امریکہ کو بھی اس معاملے پر از سر نو غور کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی مانند امریکہ بھی چین کی سرگرمیوں کو روکنا چاہتا ہے۔ اگرچہ وہ اس معاملے میں براہِ راست بھارت کی مدد نہیں کر رہا البتہ وہ چاہے گا کہ بھارت اس معاملے میں اہم کردار ادا کرے۔

ان کے مطابق اس دورے سے قبل ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید بھارت اور روس کے تعلقات کمزور ہو رہے ہیں اور یہ بھی محسوس کیا جا رہا تھا کہ بھارت کے سامنے ایک پیچیدہ صورتِ حال ہے کہ وہ بیک وقت امریکہ اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے آگے بڑھائے۔ البتہ پوٹن کے دورے اور اس کے نتائج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے رشتوں کو متوازن بنائے رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے امریکہ اور روس کے ساتھ تعلقات کو صرف دفاعی نقطۂ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ بھارت ایک اقتصادی قوت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ وہ خطے کا ایک بڑا ملک ہے۔ امریکہ بھی اس بات کو محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا وہ روسی میزائل نظام کے سلسلے میں بھارت کے خلاف سوچ سمجھ کر ہی کوئی قدم اٹھائے گا۔

اجے کمار نے یہ بھی کہا کہ حالیہ برسوں میں عالمی سطح پر کافی تبدیلیاں آئی ہیں اور بھارت کی خارجہ پالیسی بھی بدلی ہے۔ اسی درمیان چین کے ساتھ کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی اور دونوں کے افواج میں خطرناک تصادم ہوا۔ اس موقع پر بھارت نے محسوس کیا کہ اس معاملے سے اسے اکیلے ہی نمٹنا ہے۔

ان کے خیال میں جب نریندر مودی اقتدار میں آئے تو ان کی سوچ کچھ اور تھی۔ البتہ اب ان کو بھی روس بھارت تعلقات کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ آج بھی بھارت روس کے ہتھیاروں کا بہت بڑا خریدار ہے۔ روس بھی بھارت کو اپنا فطری دوست تسلیم کرتا ہے۔ جس طرح بھارت اسے نظرانداز نہیں کر سکتا اسی طرح روس بھی بھارت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔

پوٹن کے دورے کے موقع پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی گئی اور عالمی برادری سے اپیل کی گئی کہ وہ انسداد دہشت گردی کی کوششیں تیز کرے۔

کن شعبوں میں معاہدے ہوئے؟

روسی آئل کمپنی روسنفٹ کے مطابق کمپنی نے 2022 کے اختتام تک بھارتی آئل کمپنی 'انڈین آئل' کے ساتھ 20 لاکھ ٹن سے زائد کا تیل فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔

دونوں ممالک نے بھارت کی اسٹیل پیداوار کے لیے کوئلے کی بلاتعطل فراہمی کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔

افغانستان کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق روسی صدر نے اپنے دورۂ بھارت کے دوران علاقائی صورتِ حال سمیت افغانستان کے حالات پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

دونوں رہنماؤں نے اس بات کو یقینی بنانے کا عزم کیا کہ افغانستان کو دوبارہ عالمی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG