رسائی کے لنکس

کیا بھارت طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر غور کر رہا ہے؟


افغانستان میں رواں برس اگست میں طالبان کے کنٹرول کے تین ماہ گزرنے کے بعد اطلاعات کے مطابق بھارت نے بھی طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

بھارتی اخبار 'دی ہندو' کی رپورٹ کے مطابق موجودہ صورتِ حال کے پشِ نظر بھارتی حکام کابل میں سفارت خانہ دوبارہ کھولنے پر سوچ بچار کر رہے ہیں۔

اس وقت کابل میں پاکستان، روس، چین، ایران، قطر، ترکی، ترکمانستان او ازبکستان کے سفارت خانے کام کر رہے ہیں جب کہ حال ہی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے بھی اپنی سفارتی سرگرمیاں دوبارہ سے فعال کر دی ہیں۔

طالبان نے دیگر ممالک کے ساتھ بھی اس حوالے سے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ بدھ کو افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی قیادت میں ایک اعلٰی سطحی وفد نے دوحہ میں 16 ممالک کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی تھی۔

طالبان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کے مطابق اس اجلاس میں شریک جرمنی، کینیڈا، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، اٹلی، جنوبی کوریا، اسپین، یورپی یونین کمیشن، امریکہ، ناروے ، سوئیڈن، نیدرلینڈز، آسٹریلیا، برطانیہ اور جاپان کے نمائندوں کو افغانستان میں دوبارہ سے اپنے سفارت خانے کھولنے اور مکمل سیکیورٹی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔

یاد رہے کہ طالبان کے گزشتہ دورِ حکومت (1996-2001) میں بھارت نے طالبان کے ساتھ اپنے تمام تر تعلقات منقطع کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔

اس مرتبہ بھی طالبان کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے کے بعد بھارت نے کابل میں اپنا سفارت خانہ اور قونصلیٹ بند کر دیے تھے۔

راکیش سود 2005 سے 2008 تک افغانستان میں بھارت کے سفیر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 15 اگست کو طالبان کے کنٹرول کے بعد صورتِ حال کافی پیچیدہ ہو گئی تھی اس لیے بھارت کے لیے اپنا سفارت خانہ اور قونصل خانے بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت کے افغانستان کے ساتھ تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ سے افغانستان میں قیامِ امن کی بات کی۔ تاہم امن مذاکرات کے دوران ان کی حکومت کا کوئی براہ راست کردار نہیں تھا۔ کیوں کہ بھارت کا ہمیشہ سے ہی اصرار رہا ہے کہ امن کے حوالے سے بات چیت تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے اگر اس میں افغان حکومت شامل ہو۔

طالبان کے بھارت سے رابطوں کو پاکستان کیسے دیکھتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:29 0:00

دوحہ امن معاہدے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ چونکہ اس وقت کی افغان حکومت اس کا حصہ ہی نہیں تھی اس لیے اس کا حال اب ساری دنیا کے سامنے ہے۔

اُن کے بقول اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو طالبان نے کابل کا حصول سیاسی ڈائیلاگ کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر ہی حاصل کیا ہے۔

راکیش سود کا مزید کہنا تھا کہ اگرچہ افغانستان میں کئی ممالک اپنے سفارت خانے دوبارہ سے فعال کر رہے ہیں تاہم انہوں نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ ایسے میں بھارتی حکومت بہت سوچ بچار سے کام لے رہی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ چین، پاکستان، ایران، قطر اور روس کے پہلے سے ہی طالبان کے ساتھ روابط تھے، لہذٰا اُن کے سفارت خانے کام کرتے رہے۔ البتہ بھارت کے کبھی بھی طالبان کے ساتھ روابط نہیں رہے، لہذٰا یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک کابل میں اپنا سفارتی مشن بحال کرنے کے لیے شش و پنج میں ہے۔

'بھارت کو سفارتی اہل کاروں کی سیکیورٹی کی ضمانت درکار ہو گی'

راکیش سود کہتے ہیں کہ بھارت اپنے سفارتی اہل کاروں اور منصوبوں کی سیکیورٹی کی ضمانت ملنے پر ہی وہاں اپنا سفارتی مشن شروع کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔

سابق سفیر کے مطابق افغانستان کے 34 صوبوں میں کوئی بھی ایسا صوبہ نہیں ہے جہاں بھارت نے ترقیاتی کام نہ کرائے ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں بھارت نے تقریباً 60 ہزار تک افغان طلبہ کو وظائف کی بنیاد پر بھارت میں تعلیم حاصل کرنے میں سہولت دی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کا رشتہ افغان عوام سے کبھی بھی نہیں ٹوٹا ہے اور حتیٰ کہ اب طالبان کے دورِ حکومت میں بھی بھارتی حکومت نے 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور جان بچانے کی ادویات افغان عوام کے لیے فراہم کی ہیں۔

تعلقات میں سرد مہری کی تاریخ

راکیش سود کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں طالبان اور بھارتی حکومت کے روابط میں سرد مہری رہی۔ انڈین ایئر لائنز کے طیارے کے اغوا کے معاملے پر بھی فریقین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری آ گئی تھی۔

خیال رہے کہ دسمبر 1999 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو سے نئی دہلی آنے والی انڈین ایئر لائنز کی پرواز کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا جس کے بعد اس پرواز کو امرتسر، لاہور اور دبئی کے بعد قندھار ایئرپورٹ پر اُتارا گیا تھا۔ ہائی جیکرز اور انڈین حکام کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد بھارتی جیلوں میں قید کالعدم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر، احمد عمر سعید شیخ اور مشتاق احمد زرگرز کی رہائی کے عوض پرواز کو بھارت جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

طالبان سے تعلقات، کیا بھارتی حکومت کا مؤقف تبدیل ہوا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:25 0:00

البتہ راکیش سود کہتے ہیں کہ بھارت، طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی روابط رکھنے میں کسی جلدی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا، تاہم اگر مستقبل میں سیکیورٹی اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے ماحول سازگار ہوا تو بھارت ضرور افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنا چاہے گا۔

پژواک نیوز ایجنسی کے سابق مدیر، جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کابل میں دوبارہ سے سفارتی سرگرمیاں شروع کرتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو طالبان سے دُور سمجھے جاتے ہیں۔ اور اگر بھارت سفارت خانہ کھولنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرتا ہے تو یہ نہ صرف بھارت بلکہ افغان عوام کے لیے بھی اچھی بات ہو گی۔

جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق گزشتہ 20 برسوں میں امریکہ اور نیٹو کے بعد بھارت نے افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سرمایہ کاری میں بڑی شاہراہیں، ڈیم، بجلی کے منصوبے، افغان پارلیمنٹ، طبی سہولیات اور تعلیم کے شعبوں میں معاونت شامل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں بھارت کا کردار ایک بہت بڑے اسٹیک ہولڈر کے طور پر رہا ہے اس لیے حالات کی نزاکت کے حوالے سے نئی دہلی نے طالبان سے رابطے شروع کر دیے تھے اور دوحہ معاہدے کی تقریب میں بھی شرکت کی تھی۔

قطر کے علاوہ بھارتی سفارت کاروں نے طالبان کے نمائندوں کے ساتھ ماسکو میں بھی ملاقاتیں کی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان کی نوجوان نسل بھارتی فلموں اور ڈراموں کی وجہ سے ہندی زبان سے بھی کافی حد تک آشنا ہو گئی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ملک کے شمال سے تعلق رکھنے والے افراد جن کو پشتو زبان پر عبور حاصل نہیں ہے وہ بھی ہندی میں بات کر سکتے ہیں۔

افغانستان کے تمام کیبل نیٹ ورکس پر 10 سے زائد چینلز پر بھارتی فلمیں، ڈرامے اور کھیلوں کی نشریات پیش کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے اسکالر شپ پر بھارت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام افغانستان میں بھارتی سفارت کاری کا خیر مقدم کریں گے اور چاہیں گے کہ بھارت افغانستان کی ترقی میں اپنا فعال کردار جاری رکھے۔

XS
SM
MD
LG