روس کے نئے اسپیس چیف نے منگل کے روز کہا ہے کہ ان کا ملک 2024 کے بعد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے نکل جائے گا اور اپنی مدار میں اوٹ پوسٹ یا چوکی بنانے پر توجہ دے گا۔
یوری بوریسوف کو اس ماہ سرکاری خلائی ایجنسی "روزکوزموس" کی سربراہی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
نئے اسپیس چیف نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب یوکرین میں لڑائی پر ماسکو اور مغرب کے درمیان شدید تناؤ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کے دوران کہا کہ روس اس منصوبے سے نکلنے سے پہلے وہ شراکت داروں کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔
بوریسوف نے کہا ہے کہ "روس نے دو ہزار چوبیس کے بعد خلائی سٹیشن چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے،مجھے لگتا ہے کہ اس وقت تک ہم روسی مدار میں چلنے والے سٹیشن کی تشکیل شروع کر دیں گے۔"
خلائی چیف کے بیان نے روسی خلائی حکام کی طرف سے ماسکو کے 2024 کے بعد خلائی اسٹیشن چھوڑنے کے ارادے کے بارے میں پچھلے اعلانات کی تصدیق کی ہے ،جب اس کے آپریشن کے لیے موجودہ بین الاقوامی انتظامات ختم ہو جائیں گے۔
خلائی ماہرین نے کہا کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے روانگی ملک کے خلائی شعبے کو بری طرح متاثر کرے گی اور انسانوں کی پروازوں کے پروگرام کو ایک بڑا دھچکا لگے گا، جو کہ روس کے لئے باعث فخر ہے۔
ناسا اور دیگر بین الاقوامی شراکت داروں کو امید ہے کہ خلائی اسٹیشن 2030 تک چلتا رہے گا، جبکہ روس 2024 سے آگے کے وعدے کرنے سے گریزاں ہے۔
خلائی اسٹیشن کو روس، امریکہ، یورپ، جاپان اور کینیڈا کی خلائی ایجنسیاں مشترکہ طور پر چلا رہی ہیں۔ پہلا ٹکڑا 1998 میں مدار میں رکھا گیا تھا، اور یہ اوٹ پوسٹ یا چوکی تقریباً 22 سال سے مسلسل آباد ہے۔ یہ صفر کشش ثقل میں سائنسی تحقیق کرنے اور مستقبل کے خلائی سفر کے لیے آلات کی جانچ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
اس میں عام طور پر سات افراد کا عملہ ہوتا ہے، جو اسٹیشن پر ایک ساتھ مہینوں کا وقت گزارتے ہیں ۔ یہ زمین سے تقریباً 250 میل کے فاصلے پر چکر لگاتا ہے۔ یہ کمپلیکس، جو تقریباً فٹ بال کے میدان جتنا لمبا ہے، دو اہم حصوں پر مشتمل ہے، ایک روس چلاتا ہے، دوسرے کو امریکہ اور دیگر ممالک دیکھتے ہیں۔
ناسا کے آئی ایس ایس کے ڈائریکٹر رابن گیٹنز نے ایک کانفرنس کے دوران کہا کہ واشنگٹن کو ابھی تک روس باضابطہ بیان نہیں ملا ہے ۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ امریکہ اور روس کے خلائی تعلقات کو ختم کرنا چاہتی ہیں، انہوں نے جواب دیا:"نہیں، بالکل نہیں۔"
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہے کہ ماسکو کے باہر نکلنے کے بعد خلائی اسٹیشن کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے کمپلیکس کے روسی حصے کو کیا کرنا پڑے گا۔
سابق سپیس چیف ، دمتری روگوزین نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ماسکو سٹیشن کے آپریشنز کی ممکنہ توسیع کے بارے میں مذاکرات میں صرف اسی صورت میں حصہ لے سکتا ہے جب امریکہ روس خلائی صنعتوں پر عائد پابندیاں اٹھا لے۔
ایلون مسک کی اسپیس ایکس کمپنی اب ناسا کے خلانوردوں کو خلائی اسٹیشن تک لے جانے اور وہاں سے واپس لانے کے منصوبے سے روسی خلائی ایجنسی نے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ کھو دیاہے ۔ برسوں سے، ناسا روسی راکٹوں پر سوار اسٹیشن جانے اور جوواپس انے کے لیے دسیوں ملین ڈالر فی سیٹ ادا کر رہا تھا۔
یوکرین کشیدگی کے باوجود، ناسا اور روزکوزموس نے اس ماہ کے شروع میں خلابازوں کے لیے روسی راکٹ کی سواری جاری رکھنے اور روسی خلابازوں کے لیے SpaceX کے ساتھ خلائی اسٹیشن کی لفٹیں اس موسم خزاں میں شروع کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا ۔ لیکن پروازوں میں رقم کا کوئی تبادلہ نہیں ہوگا۔
ناسا اور روسی حکام کے مطابق، معاہدہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسپیس سٹیشن میں ہمیشہ کم از کم ایک امریکی اور ایک روسی سوار ہو گا تاکہ چوکی کے دونوں اطراف آسانی سے چل سکیں۔
ماسکو اور واشنگٹن نے سرد جنگ کے عروج پر بھی خلا میں تعاون جاری رکھا ، جب اپولو اور سویوز خلائی جہاز 1975 میں پہلے بین الاقوامی خلائی مشن میں مدار میں گئے ، جس سے امریکہ اور سوویت تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔