یوکرین کی جنگ ''ناقابل فتح'' ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینتونیو گوٹیرس نے منگل کے روز کہا ہے کہ یوکرین میں جنگ ''ناقابل فتح'' ہے اور اس کا کوئی فوری نتیجہ بھی سامنے نہیں آیا۔ انھوں نے کہا کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ فریقین جنگ بندی اور کئی اہم امور پر غور کریں''۔
گوٹیرس نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ دشمنی کو ختم کرنے کے لیے کافی جواز موجود ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدگی سے مذاکرات کئے جائیں۔
انہوں نے اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اہم معاملات پر فریقین کے درمیان کیا مثبت امکانات ہو سکتے ہیں اور متعدد ممکنہ ثالثوں میں سے کون ذمے داری اٹھانے کو تیار ہے۔ تاہم، یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں بنیادی طور پر اپنا مطالبہ ترک کر دیا ہے کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کا حق برقرار رکھتا ہے، جبکہ ترکی اور اسرائیل ممکنہ ثالثوں میں شامل ہیں۔
گوٹیرس جنگ کے بارے میں غیر معمولی طور پر واضح بیان دیتے آئے ہیں اور روس کی کارروائی کو ''جارحیت'' کا نام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوکرین کے عوام تقریباً ایک ماہ قبل ماسکو کی جانب سے بڑے پیمانے پر حملےشروع ہونے کے بعد سے مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے منگل کو اعلان کیا کہ یوکرین میں جنگ جاری رکھنا اخلاقی طور پر ''ناقابل قبول''، سیاسی طور پر ''ناقابل دفاع'' اور عسکری سطح پر ''غیر دانشمندانہ'' ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ''یہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور جلد یا بدیر میدان جنگ سے امن کی طرف جانا پڑے گا۔ یہ ناگزیر ہےاور اب اس بے معنی جنگ کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے''۔
روسی فوج کے خلاف یوکرین کی جوابی کارروائی، ماکاریف پر دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کی اطلاعات
روسی افواج کے یوکرین پر حملے کے تقریباً ایک ماہ بعد ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ یوکرین کی افواج جارحانہ انداز میں روسی فوجیوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اور بعض صورتوں میں اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لے رہی ہیں۔ یوکرین کی وزارت دفاع نے منگل کو کہا کہ اس کی افواج نے شدید لڑائی کے بعد دارالحکومت کیف کے مضافاتی علاقے ماکاریف کو واپس لے لیا ہے۔
امریکی حکام نے یوکرین کی جوابی کارروائی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن انھوں نے یہ کہا ہے کہ ملک کے کچھ حصوں میں صوررت حال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے؛ اور ملک کے جنوبی حصے میں ازیوم سے ایک کلومیٹر جنوب مشرق میں یوکرین کی فوج نے قریبی علاقوں میں بھی جوابی کارروائی شروع کر دی ہے۔
پینٹاگون کے پریس سکریٹری جان کربی نے منگل کو دیر گئے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم نے ایسے آثار دیکھے ہیں کہ یوکرینی اب جوابی کارروائی میں شدت لا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ بہت ہوشیاری اور دانشمندی سے ایسی جگہوں کا دفاع کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ دفاع کے لیے وہ درست مقامات ہیں''۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے یوکرین کے لیے کریملن کے منصوبوں کے بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ روس اب تک واضح طور پر ناکام رہا ہے۔ چاہے روس ایک شہر پر، ایک قصبے پر یا مزید علاقے پر قبضہ کر لے وہ کبھی بھی اس مقصد کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوں گے جس کا انہوں نے تعین کیا تھا۔ یوکرین کے بہادر شہری شکست تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور مقابلہ کر رہے ہیں۔
روس کی وزارت دفاع نے اپنے انگریزی زبان کے 'ٹیلیگرام فیڈ' پر جنگ کی ایک مختلف تصویر کشی کی ہے، جس میں روسی افواج کی تعریف کی گئی ہے جب وہ جنوب مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں پر پیش قدمی کر رہی تھیں اور یوکرینی افواج پسپا ہو گئیں۔ انھوں نے یوکرین کے ایندھن کے ڈپووں اور پوزیشنوں پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کے ساتھ قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔
یوکرین کے کئی شہری علاقے روسی افواج کی شدید گولہ باری اور میزائل حملوں کی زد میں ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منگل کے روز تک 35 لاکھ یوکرینی باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر جا چکے تھے جن میں سے 20 لاکھ افراد پولینڈ گئے ہیں۔
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے سربراہ ماسکو پہنچ گئے
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی نے کہا ہے کہ اس عالمی امدادی ادارے کے صدر پیٹر ماؤرر بدھ کو ماسکو پہنچ گئے ہیں جہاں وہ روسی حکام کے ساتھ یوکرین میں انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کی کوششوں کو بہتر بنانے کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ ہفتوں کی جنگ اور ڈونباس میں آٹھ برسوں سے جاری تنازع سے صورت حال میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ انسانی ہمدردی کی امداد کے بین الاقوامی قوانین میں اس سلسلے میں عملی اقدامات کے ساتھ رہنمائی کی گئی ہے کہ لوگوں کے مصائب میں کس طرح کمی لائی جا سکتی ہے۔
بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے صدر کا مزید کہنا تھا کہ میں گزشتہ ہفتے کیف میں تھا اور اب میں ماسکو آیا ہوں تاکہ حکام کے ساتھ امدادی سرگرمیوں کے اقدامات پر بات چیت کر سکوں۔
یوکرین کی بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر اقوام متحدہ میں تین قراردادیں
اقوام متحدہ میں بدھ کے روز یوکرین کی صورتِ حال پر تین قراردادیں پیش کی جا رہی ہیں جن میں سے ایک قرارداد یوکرین اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ ہے۔ دوسری قرار داد جنوبی افریقہ کی جانب سے سامنے لائی گئی ہے کہ جب کہ تیسری قرارداد کا اسپانسر روس ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان قراردادوں میں یوکرین میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔
جنرل اسمبلی میں لائی جانے والی یوکرین اور مغربی ممالک کی قراردار میں یوکرین میں انسانی بحران کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذمہ دار روس کو قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ جنرل اسمبلی میں ہی لائی جانے والی جنوبی افریقہ کی قرار داد میں روس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
تیسری قرارداد کو روس کی حمایت حاصل ہے اور اسے ووٹنگ کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق قرارداد میں روس کی جانب سے یوکرین میں جارحیت کا حوالہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
یوکرین کے کئی شہری روسی افواج کی شدید گولہ باری اور میزائل حملوں کی زد میں ہیں اور پناہ گزینوں کے عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منگل کے روز تک 35 لاکھ یوکرینی باشندے اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر جا چکے تھے جن میں سے 20 لاکھ افراد پولینڈ گئے ہیں۔