بائیڈن نے اعلیٰ امریکی اہلکار کو یوکرین بھیجنے پر غور شروع کر دیا
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کو روسی جنگ سے دوچار ملک یوکرین بھیجنے پر غور کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ سطح کا یہ دورہ محصور ملک کے لیے واشنگٹن کے عزم کا اظہار ہو گا۔
صدر بائیڈن سے جب ایک نامہ نگار نے پوچھا کہ کیا وہ کسی اہلکار کو یوکرین بھیجیں گے؟ جس پر بائیڈن نے جواب دیا، "ہم ابھی یہ فیصلہ کر رہے ہیں۔"
جواب میں بائیڈن نے رپورٹر سے ازراہِ مذاق کہا کیا آپ جانے کے لیے تیار ہیں اس پر رپورٹر نے صدر سے استفسار کیا کہ کیا آپ بھی تیار ہیں؟ صدر نے کہا کہ "ہاں"۔
یاد رہے کہ اس ہفتے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ بائیڈن کا خود یوکرین کا دورہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
حالیہ دنوں میں برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن سمیت کئی یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے دارالحکومت کیف کا دورہ کیا ہے اور یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
سویڈن اور فن لینڈ نیٹو میں شامل ہوئے تو روس بلقان میں جوہری ہتھیار اور ہائپر سونک میزائل نصب کرے گا، مددیف
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک قریبی ساتھی نے جمعرات کو نیٹو کو خبردار کیا کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ نے امریکی قیادت والے عسکری اتحاد میں شمولیت اختیار کی تو روس یورپ کے ایک اہم مرکزی محصور خطے میں نیوکلیئر ہتھیار اور ہائپر سونک میزائل نصب کرے گا۔
فن لینڈ، جس کی 1300 کلومیٹر (810 میل) کی سرحد روس کے ساتھ ملتی ہے، اور سویڈن نیٹو اتحاد کا حصہ بننے پر غور کر رہے ہیں۔ فن لینڈ کی وزیر اعظم سنا مارین نے بدھ کے روز کہا ہے کہ اس ضمن میں فن لینڈ آئندہ چند ہی ہفتوں کے دوران فیصلہ کرنے والا ہے۔
روس کی سیکیورٹی کونسل کے معاون سربراہ، دمتری مددیف نے کہا ہے کہ اگر سویڈن اور فن لینڈ نیٹو میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو روس کے لیے ضروری ہو جائے گا کہ وہ بحیرہ بلقان میں اپنی بَری، بحری اور فضائی افواج کو مضبوط تر بنائے۔
مددیف نے واضح طور پر نیوکلیئر خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب بلقان کو ''جوہری طاقت سے پاک'' علاقے کی بات نہیں کی جائے گی، جہاں روس کا کیلن گراڈ کا محصور علاقہ ہے، جو خطہ پولینڈ اور لتھوانیا کے درمیان واقع ہے۔
مددف نے کہا کہ ''اگر ایسا ہی ہے تو پھر آج کے بعد بلقان کو جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنے کی بات نہ جائے، تب ہی توازن برقرار رہ سکتا ہے''۔ مددیف 2008ء سے 2012ء تک روس کے صدر رہ چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ فن لینڈ اور سویڈن سمجھ سے کام لیں گے۔ بقول ان کے، اگر نہیں تو پھر ان کو نیوکلیئر اسلحے اور ہائپر سونک میزائلوں سے واسطہ پڑے گا، جو ان کی سرزمین سے زیادہ دور نہیں ہوں گے۔
جی 20 سربراہ اجلاس، امریکہ ایجنڈا میں یوکرین کا معاملہ رکھے گا
آئندہ نومبر میں 'جی 20' سربراہ اجلاس انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہو گا۔ بائیڈن انتظامیہ اجلاس کے ایجنڈا میں روسی جارحیت کے نتیجے میں بین الاقوامی اقتصادیات پر پڑنے والے اثرات اور یوکرین کی تعمیر نو کے امور شامل کرنے کی خواہاں ہے، جس معاملے پر اس معاشی فورم کی سوچ میں مزید دراڑیں پڑنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری جین ساکی نے بدھ کے روز معمول کی پریس بریفنگ کے دوران 'وائس آف امریکہ' کے سوال پر بتایا کہ ''یوکرین، یوکرین پر روس کا حملہ عالمی برادری پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ یہ معاملہ بین الاقوامی فورمز پر مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس عتبار سے یہ بات غیر معمولی نہیں ہوگی کہ (یہ معاملہ ایجنڈا میں) شامل ہو''۔
انھوں نے مزید کہا کہ ''اور پھر یوکرین کی معاشی بحالی اور تعمیر اور تعمیر نو ایسا معاملہ ہے جس میں عالمی برادری چاہے گی کہ اس سے وابستہ ہو اور اس میں کام آئے''۔
مارچ میں، صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ روس کو گروپ آف 20 کے سب سے بڑی اقتصادیات والے رکن ملکوں کے فورم سے خارج کر دیا جائے یا پھر آئندہ جی 20 سربراہ اجلاس میں مبصر کے طور پر یوکرین کو مدعو کیا جائے، یہ اجلاس انڈونیشیا کے شہر بالی میں منعقد ہو گا۔
ساکی نے مزید کہا کہ ''یوکرین کو شامل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ محض لڑائی کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے۔ ہمیں یوکرین کی تعمیر نو کی ضرورت ہو گی''۔ انھوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ یوکرین نے یورپی یونین کی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے، جو 'جی 20' کا حصہ ہے۔
یورپ فوری طور پر روسی گیس پر انحصار ختم نہیں کر سکتا، پوٹن
ایسے میں جب کہ یورپی ممالک روسی درآمدات پر انحصار میں کمی لا رہے ہیں، صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کے دن کہا ہے کہ روس کی یہ کوشش رہے گی کہ وہ توانائی کے اپنے وسائل مشرق کی جانب پھیلانے کی کوشش کرے۔ انھوں نے کہا کہ یورپ کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ فوری طور پر روسی گیس کا استعمال مکمل طور پر بند کر دے۔
روس تیل کی عالمی پیداوار کا 10 فی صد پیدا کرتا ہے اور اس بات کے لیے کوشاں رہا ہے کہ وہ ایشیا اور چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرے جو توانائی کے استعمال کے لحاظ سے بہت بڑے صارف ہیں، تاکہ یورپ کی روایتی سپلائی والی مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ نئی منڈیوں کو تلاش کیا جا سکے۔
یوکرین پر حملے کے نتیجے میں مغربی ملکوں نے روس کے خلاف تعزیرات عائد کر دی ہیں جن کی وجہ سے روس کی توانائی کی برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جس کے سبب روس کے مالی معاہدوں اور نقل و حمل پر مضر اثرات پڑے ہیں۔
ایک سرکاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، جسے ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا، پوٹن نے کہا کہ ''جو بات حیران کن ہے وہ یہ کہ خود ساختہ شراکت دار اور غیر دوستانہ ممالک یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ روسی توانائی کے وسائل کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہو گا، مثلاً قدرتی گیس''۔
بقول ان کے، ''یورپ میں اس وقت (گیس) کا کوئی معقول متبادل موجود نہیں ہے''۔
انھوں نے کہا کہ یورپ یہ تو کہہ رہا ہے کہ روس سے توانائی کی رسد کاٹ دی جائے، اسے بڑھتی ہوئی قیمتوں اور عدم استحکام کی شکار مارکیٹ کی حقیقت سے واسطہ پڑ رہا ہے''۔
پوٹن کے بقول، ''غیر دوستانہ ممالک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ روسی توانائی کے وسائل کی دستیابی کے بغیر ان کا گزارہ نہیں ہو گا''۔