یوکرین کےشہر ماریوپول میں فیلڈ اسپتال روسی بمباری کا نشانہ
یوکرین کی وزارت خارجہ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ روس نے ماریوپول میں ایک فیلڈ ہسپتال کو بمباری کا نشانہ بنایا۔
اخبار دی نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کی وزارت نے کہا کہ زخمی فوجیوں کا قتل یا مزید زخمی کرنا جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔
ماریوپول میں پھنسے شہریوں کو نکالنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں:سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نےجمعرات کو کہا ہے کہ ان کی تنظیم ماریوپول میں اسٹیل پلانٹ کو خالی کرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے جہاں جنگجو اور عام شہری چھپے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز 'کے مطابق سیکریٹری جنرل نے یوکرین کے صدر ولودویمیر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد کہا کہ "ہم اس وقت ہر ممکن اقدامات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں"
اس موقع پر زیلینسکی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سیکریٹری جنرل اور وہ مل کر اسٹیل پلانٹ میں پھنسے شہریوں کی مدد کر سکیں گے۔
اس سے قبل جمعرات کو گوتیرس نے کیف سے باہر ان تین قصبوں کا دورہ کیا تھا جن پر روسی افواج نے قبضہ کیا تھا۔
انہوں نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو کلپ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ "جہاں بھی جنگ ہوتی ہے، سب سے زیادہ قیمت عام شہری ادا کرتے ہیں۔"
یوکرین جنگ اور غذا کی قلت: بائیڈن انتظامیہ کا گندم کی کاشت بڑھانے کے لیے 50 ارب ڈالر کا پروگرام
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کاشت کاروں کو گندم کی پیداوار دوگنا کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے کانگریس سے امریکی فارم سیکٹر کے لیے 50 ارب ڈالر کی منظوری کے لیے کہا ہے۔
امریکہ کی جانب سے یہ کوشش اس وقت سامنے آئی ہے جب یوکرین پر روس کے حملے کے بعد عالمی سطح پر اناج کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں مکئی اور گندم کی ترسیل میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ روس اور یوکرین دونوں کا گندم اور مکئی کے دنیا کے بڑے سپلائرز میں شمار ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ زراعت کے ایک اہلکار کے مطابق 50 ارب ڈالر کی درخواست کا مقصد امریکی غذائی فصلوں، خاص طور پر گندم کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے کیوں کہ جنگ کے باعث عالمی سطح پر گندم کی قلت ہوئی ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے معاملے پر وسط ایشیائی ملک سخت آزمائش میں
یوکرین کی لڑائی کے بعد وسطی ایشیا کی ریاستیں سخت آزمائش میں مبتلا ہیں، وہ اس بات پر ناخوش ہیں کہ ماسکو نے سابق سویت جمہوریہ کی ہی ایک ریاست پر بلا جوازحملہ کیا؛ جب کہ معاشی طور پر یہ ملک روس پرانحصار کرتے ہیں اور وہ اس کے سربراہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
اس معاملے پر ازبکستان اور دیگرملکوں کا ردعمل محتاط نوعیت کا اورغیر جانبداری پر مبنی ہے، جیسا کہ گزشتہ ماہ اس وقت کے ازبک وزیر خارجہ عبد العزیز کاملوف نے ازبک سینیٹ کے سامنے اپنے کلمات میں کہا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ لہانسک اور ڈونیٹسک کے علیحدہ ہونےوالے خطے یوکرین کا علاقہ ہیں۔ بقول ان کے، ہم یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، انھوں نے مزید کہا کہ تاشقند روس کے ساتھ اپنے گہرے سیاسی اور معاشی مراسم کی قدر کرتا ہے۔
کاملوف نے صدر شوکت مرزایوف کے اصرار پر کہا کہ ازبکستان کسی فوجی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا یا بیرون ملک افواج کو تعینات کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ مرزا کی انتظامیہ کے دیگر عہدے داروں نے کہا ہے کہ لڑائی کے بارے میں ازبکستان کا مؤقف نہ تبدیل ہونے والا اور پختہ نوعیت کا ہے، جس کی اساس غیر جانبداری ہے۔ جب بھی لڑائی کی بات آتی ہے تو ازبکستان غیر جانبداری کی بات دہراتا ہے۔