گیس روبل میں نہ خریدنے پر روسی دھمکی، یوپری یونین کے تونائی وزرا کا ہنگامی اجلاس
یوروپی یونین کے ممالک کے توانائی کے وزراء نے کہا کہ وہ پیر کو ہنگامی بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔.
یورپی یونیں ماسکو کے اس مطالبے پر متحد جواب دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یورپی خریدار روسی گیس کی روبل میں ادائیگی کریں یا ان کی سپلائی منقطع ہو جائے گی۔
خیال رہے کہ روس کو یوکرین پر حملے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے عائد پرکئی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ جرمن نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ روسی گیس پر انحصار کم سے کم کردے گا۔
رپورٹس کے مطابق روس نے مطالبہ کیا ہے کہ گیس کے غیر ملکی خریدار نجی روسی بینک کے اکاؤنٹ میں یورو یا ڈالر جمع کرایں، جو اس کے بعد کرنسی کو روبل میں تبدیل کر دے گا۔
پیلوسی کا کیف کا غیر اعلانیہ دورہ، صدر زیلنسکی سے ملاقات میں حمایت کا اعادہ
امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی اور چھ دیگر ڈیموکریٹک قانون سازوں نے ہفتے کے روز یوکرین کے دارالحکومت کیف کا غیر اعلانیہ دورہ کیا اور صدر و لودومیر زیلنسکی سے تین گھنٹے کی ملاقات کی۔
پیلوسی روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے جنگ زدہ ملک کا دورہ کرنے والی اعلیٰ ترین امریکی اہلکارہیں۔اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن بھی یوکرین کا دورہ کر چکے ہیں۔
روسی حملے کے بعد اب تک جنگ میں دونوں طرف سے ہزاروں جنگجو اور یوکرین کے ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں۔
کیف کے دورے کے بعد پولینڈ پہنچ کر اسپیکر پیلوسی نے کہا کہ انہوں نے زیلنسکی سے وعدہ کیا تھا، "ہم اس جنگ کے جیتنے تک آپ کے ساتھ ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ کانگریس کا وفد ان کے لیے روسی حملے کے خلاف لڑنے کے لیے "امریکی عوام کی طرف سے ان کی قیادت کے لیے تعریف کا پیغام لے کر آیا ہے۔
اسپیکر نے امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے گزشتہ ہفتے کانگریس کو بھیجی گئی 33 بلین ڈالر کی نئی یوکرین امداد کی درخواست کو ایوان سے جلد منظور کرنے کا وعدہ بھی کیا ۔
اقوام متحدہ کا ماریوپول شہر کے اسٹیل پلانٹ سے محصور یوکرینی شہریوں کو نکالنے کا آپریشن
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کے جنگ سے تباہ حال جنوبی بندرگاہ کے شہر ماریوپول میں روسی افواج کی طرف سے بلاک کیے گئے اسٹیل پلانٹ سے ایک ہزار یوکرینی شہریوں کو محفوظ راستے سے نکالنے کا آپریشن کر رہا ہے۔
اس آپریشن کو روسی اور یوکرینی حکام کے ساتھ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے تعاون سے، ہفتے کے روز شروع کیا گیا۔
یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تقریباً 100 افراد کا پہلا گروپ پہلے ہی زیر کنٹرول علاقے زیپوریژیا کی طرف بڑھ رہا ہے اور یوکرینی حکام کل اس سے وہاں ملیں گے۔
حکام کا خیال ہے کہ مزید 2,000 یوکرینی جنگجو اسٹیل پلانٹ میں موجود ہیں۔ وہ سرنگوں کے بڑے کمپلیکس کے بھولبلییوں کے راستوں میں موجود ہیں اور وہاں روسی افواج کا گھیراوہے۔
خیال رہے کہ تقریباً 100,000 دیگر یوکرینی شہری اب بھی بحیرہ ازوف کے شمالی ساحل پر اس شہر میں موجود ہو سکتے ہیں جو دو ماہ کی بمباری مہم کے بعد روس کے زیر کنٹرول ہے۔رپورٹس کے مطابق شہر کو بمباری میں ملیا میٹ کر دیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر، روسی وزارت دفاع نے کہا کہ 46 افراد کو نکالا گیا، جن میں سے 25 کا ایک گروپ اور دوسرے کل 21 تھے، جب کہ اسٹیل ورکس کا دفاع کرنے والی یوکرائنی یونٹ ازوف رجمنٹ نے کہا کہ نکالے جانے والوں میں 20 خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
یوکرین میں لڑتے ہوئے، ایک سابق امریکی فوجی ہلاک
یوکرینی افواج کے ہمراہ روس کے خلاف لڑائی لڑتے ہوئے ایک سابق امریکی میرین ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ بات ان کے رشتہ داروں نے خبروں کے اداروں کو بتائی ہے۔ وہ پہلے امریکی شہری ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ لڑائی لڑتے ہوئے یوکرین میں ہلاک ہوئے۔
ربیکا کابریرا نے سی این این کو بتایا کہ ان کا 11 برس کا بیٹا، ولِی فوزف کینسل پیر کے دن ہلاک ہوا۔ وہ ایک عسکری کانٹریکٹنگ کمپنی سے منسلک ہوا تھا جس نے انھیں لڑنے کے لیے یوکرین روانہ کیا۔
کابریرا نے بتایا کہ وہ ٹینیسی میں کریکشنز افسر کے طور پر کام کیا کرتا تھا، جس نے ایک نجی کمپنی میں شمولیت اختیار کی، اور وہ فروری کے اواخر میں لڑنے کی غرض سے یوکرین روانہ ہوا۔ انھوں نے سی این این کو بتایا کہ و ہ یوکرین جانے پر رضامند تھا۔
بقول ان کے ''وہ وہاں جانا چاہتا تھا چونکہ ان کا انہی اقدار میں یقین تھا جن کی سربلندی کے لیے یوکرین اپنا دفاع کر رہا ہے۔ اور وہ یوکرین کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی وہیں رکی رہے اور یہاں تک نہ پہنچے، تاکہ امریکی فوجیوں کو اس میں ملث ہونے کی ضرورت نہ پڑے''۔
کاربریرا نے کہا کہ ان کے بیٹے کی میت نہیں مل سکی۔
بقول ان کے، ''ان کی لاش برآمد نہیں کر پائے جس کی کوشش جاری ہیں ''۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا 12 مارچ کو پولینڈ روانہ ہوا تھا اور کچھ ہی دنوں کےاندر یوکرین میں داخل ہو چکا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جن لڑاکوں کے ساتھ لڑ رہا تھا ان کا تعلق متعدد ملکوں سے تھا۔