روسی جہاز پر قبضے کے مقدمے میں امریکہ کی ابتدائی کامیابی
امریکہ نے فی جی میں ساڑھے بتیس کروڑ ڈالر کے روسی ملکیت والے بڑے بحری جہاز کے قبضے سے متعلق قانونی لڑائی کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اب یہ مقدمہ سماعت کے لیے فی جی کی اعلیٰ عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
اس سے پہلے جمعے کے روز اپیل کورٹ نے عمادیہ نامی جہاز کی قانونی ملکیت رکھنے والی کمپنی کے نمائندے فیض الحنیف کی اپیل مسترد کر دی تھی۔
حنیف نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ فی جی کے باہمی معاونت کے قانون کے تحت امریکہ کو اس جہاز کو قبضے میں لینے کا کوئی اختیار نہیں جب تک کہ عدالت یہ فیصلہ نہ کر دے کہ اس کا اصل مالک کون ہے۔
وہ چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ امریکی ایجنٹوں کو اپیل کے فیصلے تک عمادیہ جہاز کو چلانے سے روک دے۔
اس مقدمے سے وہ قانونی اختلافی پہلو اجاگر ہوئے ہیں جو یو کرین پر روسی حملے کے بعد روس کے ارب پتی الیگارکس پر پابندیوں سے پیدا ہوئے ہیں۔
روس یو کرین کے خلاف نسل کشی کی کھلی پالیسی پر کاربند ہے، زیلنسکی
یو کرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے اپنے روزانہ کے خطاب میں کہا ہے کہ روس یو کرین کے خلاف کھلے بندوں نسل کشی کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا،" اگر دنیا کے مضبوط لوگ روس کے ساتھ شامل نہ ہوتے اور جنگ بند کرنے کے لیے روس پر واقعتاً دباؤ ڈالتے تو تباہ کن واقعات نہ ہوتے۔"
زیلنسکی نے کہا کہ ایسے میں جب یورپی یونین روس کے خلاف تعزیروں کے چھٹے پیکیج پر اتفاقِ رائے کی کوشش کر رہی ہے، " روس توانائی سپلائی کر کے یورپ سے تقریباً ایک ارب یورو روزانہ حاصل کر رہا ہے۔"
اسی دوران اپنی حمایت کے اظہار کے لیے فن لینڈ کی وزیرِ اعظم ثنا مرین نےجمعرات 26 مئی کو یو کرین میں صدر زیلنسکی سے ملاقات کی اور کیف کے علاوہ ارپن اور بوچا کا بھی دورہ کیا، جو مبینہ روسی جنگی جرائم کا مرکز رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ مستقبل میں،" روس کے خلاف عالمی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم کی چھان بین اور ثبوت جمع کر نے کی حمایت کرتی ہیں۔"
زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں فن لینڈ کی اس حمایت کا شکریہ ادا کیا۔
اسی دوران اہم مغربی ممالک نے جمعرات کے روز یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
یو کرین کے مشرق میں روسی فورسز کا نیا حملہ
یو کرین کے شمال مشرق میں جہاں روسی فورسز کو روسی سرحد کی جانب دھکیل دیاگیا تھا، جمعرات کو بظاہر انہوں نے یوکرین کے اس علاقے میں نیا حملہ کیا ہے جبکہ مغربی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تین ماہ سے جاری اس جنگ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
یو کرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں حکام نے بتایا ہے کہ روسی گولہ باری سے کم از کم 7 عام شہری ہلاک اور 17 زخمی ہو گئے ہیں اور شہر کے شمال اور مشرق میں شدید لڑائی جاری ہے۔
اس ماہ کے شروع میں یو کرین کے جوابی حملے کے نتیجے میں روسی فوجیں شہر سے روسی سرحد کے قریب دھکیل دی گئی تھیں مگر عہدیداروں کے مطابق بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ روسی فورسز شہر کے شمال میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہی ہیں اور جوابی حملہ کر رہی ہیں۔
اگرچہ سوشل میڈیا پر روسی ذرائع ڈونباس میں کامیابیوں کا مسلسل ذکر کر رہے ہیں، تاہم خارکیف کے قریب کی صورتِ حال پر ان کی جانب سے کچھ نہیں کہا جا رہا۔
ایک سینئیر امریکی دفاعی عہدیدار نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ خارکیف میں لڑائی میں اضافے کی خبروں کے باوجود ابھی کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدیدار نے نامہ نگاروں کو بتایا ،" ہمارا اب بھی اندازہ ہے کہ یو کرینی افواج روسی فورسز کو شہر سے مزید پرے دھکیل رہی ہیں''۔"
اناج برآمد کرنے کے لیے ترکی کے یو کرین اور روس سےمذاکرات
ترکی کے ایک سینئیر عہدیدار نے کہا ہے کہ یوکرین سے اناج برآمد کرنے سے متعلق ترکی کے مذاکرات جاری ہیں۔
ترکی کے سینئیر عہدیدار نے جمعرات کے روز خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ترکی روس اور یوکرین سے اس بارے میں مذاکرات کر رہا ہے کہ بوسفورس سے ہوتا ہوا ایک راستہ کھولا جائے جس کے ذریعے اناج یوکرین سے برآمد کیا جا سکے۔
فروری میں یوکرین پر حملے کے بعد روس نے بحیرہ اسود میں یوکرین کی بندرگاہیں بند کر دی تھیں اور تب سے دو کروڑ ٹن سے زیادہ اناج وہاں رکا ہوا ہے۔
روس اور یو کرین دنیا میں گندم کی تقریباً ایک تہائی سپلائی فراہم کرتے ہیں اور یو کرین سے برآمدات نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کا بڑھتا ہوا بحران پیدا ہو رہا ہے۔
ترک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ترکی، یو کرین سے اناج کی برآمد کے لیے روس اور یو کرین دونوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے اور یہ بات زیرِ غور ہے کہ ترکی کے راستے اناج یوکرین سے مقررہ منڈیوں تک پہنچایا جائے ۔
روسی صدر رجب طیب ایردوان کے دفتر نے اس بارے میں تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ تاہم، بدھ کے روز روسی نائب وزیرِ خارجہ آندرے رودنکو کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ روس مغربی ممالک کی عائد کردہ بعض تعزیریں ختم کرنے کی شرط پر اناج لیجانے والے جہازوں کو محفوظ راستہ دینے پر تیار ہے۔