یوکرین کے دارالحکومت کیف میں روسی حملے کے بعد اس وقت کیا صورت حال ہے؟ جانتے ہیں وائس آف امریکہ کی ہیڈر مرڈوخ سے۔
یوکرین پر حملے کے خلاف روس بھر میں مظاہرے، سینکڑوں افراد گرفتار
یوکرین پر روس کی فوجی کارروائیوں کے خلاف 24 فروری کو میڈیا رپورٹس کے مطابق روس کے 54 قصبوں اور شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس روز سب سے بڑا مظاہرہ ماسکو کے مرکزی چوک پشکن اسکوائر پر ہوا جس میں کئی ہزار افراد شریک ہوئے۔اس موقع پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا۔
ماسکو سٹی کورٹ نے 25 فروری کو کہا کہ تقریباً 200 مظاہرین پر غیر منظور شدہ عوامی تقریبات میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
آرایف ای آر ایل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانی حقوق کی معروف روسی راہنما مارینا لیٹوینووچ پر 25 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف ماسکو میں حکام سے اجازت حاصل کیے بغیر ریلی منظم کرنے کی کوشش پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
لیٹوینووچ کے وکیل فیوڈور سروش نے بتایا کہ ماسکو کی ایک ضلعی عدالت نے ان کی مؤکل پر 30 ہزار روبل یعنی 350 ڈالر جرمانہ عائد کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔
لیٹوینووچ کو ایک روز قبل اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب انہوں نے روسیوں سے یوکرین پر حملے کے خلاف اپنے شہروں اور قصبوں میں مظاہرے کرنے کی اپیل کی تھی ۔
ایک اور خبر کے مطابق 250 روسی اسکالرز نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں یوکرین میں جنگ روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سینکڑوں روسی صحافیوں، گلوکاروں، مصنفین اور دیگر شعبوں کی مشہور شخصیات نے جنگ کی مذمت میں بیانات جاری کیے ہیں۔
روس سے روسی اور یوکرینی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار "نووایاگازیٹا" میں 25 فروری کو یہ وضاحت شائع کی گئی ہے کہ "اخبار کا عملہ یوکرینی کو دشمن کی زبان نہیں سمجھتا"۔
اخبار کے چیف ایڈیٹر، دمتری موراتوف نے، جو نوبیل انعام یافتہ ہیں، اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ "صرف روسی شہریوں کی جنگ مخالف تحریک ہی اس کرہ ارض پر انسانی ہلاکتوں کو بچا سکتی ہے۔"
روس کی ایک معروف گلوکارہ ویلری میلادزے نے اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں جنگ بند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ" آج جو کچھ ہوا،وہ کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا"۔
رپورٹر کی ڈائری: ’ہمیں کہا گیا دو گھنٹے میں نکل جائیں ورنہ آپ روس میں ہوں گے‘
برطانیہ کے اخبار گارڈین نے اپنی 25 فروری کی اشاعت میں روس کے اندر بڑے پیمانے پر مظاہروں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیس نے ملک بھر میں مظاہرین کے خلاف کارروائیوں میں 1700 سے زائد افراد کو حراست میں لیا۔
اخبار کا کہنا ہےکہ پولیس نے جمعرات کی شام تک روس کے 53 شہروں میں غیرقانونی مظاہروں کو منتشر کرتے ہوئے کم ازکم 1702 گرفتاریاں کیں تھیں۔زیادہ تر گرفتاریاں ماسکو اور روس کے ایک اور بڑے شہر سینٹ پیٹربرگ میں کی گئیں۔
گارڈین کے مطابق مظاہرین "جنگ نامنظور" کے نعرے لگا رہے تھے۔
جمعرات کو ایک آزاد ادارے لیواڈا سینٹر کے تحت کرائے جانے والے سروے کے مطابق یوکرین پر کریملن کے حملے کو صرف 45 فی صد روسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
ماسکو کے کارنیگی سینٹر کے سیاسی تجزیہ کار الیگزینڈر بونوف کہتے ہیں کہ " پوٹن سڑکوں پر عوامی منظوری سے لاتعلق دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسے سیاست دان نہیں جنہیں عوامی حمایت کی ضرورت ہوتی ہے، بلکہ وہ قومی تاریخ کی کتابوں کی ایک ایسی شخصیت جیسے ہیں جو صرف مستقبل کے مورخین اور قارئین کی منظوری کا خیال کرتے ہیں"۔
یوکرین پر بات چیت کے لیے مقام کا تعین نہیں ہوا، کریملن کا بیان
کریملن کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان امن بات چیت کا امکان ممکن نہیں لگتا چونکہ مذاکرات کے مقام کے بارے میں بظاہر اختلاف رائے موجود ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے جمعے کو ماسکو سے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے حوالے سے بتایا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین کے عہدے داروں کے ساتھ بات چیت کے لیے وفد بیلاروس کے دارالحکومت منسک بھیجنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، جہاں صدر الیگزینڈر لکاشنکو روس نواز حکومت کے سربراہ ہیں۔
اس سے قبل آج ہی کے دن یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے یوکرین کی غیر جانبدار حیثیت کے معاملے پر غور کرنے کی پیش کش کی تھی، جس کے بعد یہ بیان سامنے آیا ہے۔
پیسکوف نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ جب متعلقہ فریقوں نے منسک کو بات چیت کا مقام طے کرنا چاہا تو یوکرین کے عہدے داروں نے اپنا موقف تبدیل کیا اور کہا کہ وہ منسک کا سفر کرنے پر تیار نہیں ہیں اور چاہیں گے کہ یہ مذاکرات نیٹو کے رکن، پولینڈ میں ہونے چاہئیں۔ پیسکوف کے مطابق، پھر انھوں نے مزید رابطہ ختم کر دیا۔
پوٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمسایہ ملک پر حملے کے احکامات اس لیے ضروری ہو گئے تھے، کیونکہ، بقول ان کے، مغربی ملکوں نے روس کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ یوکرین کو نیٹو کا رکن نہ بنایا جائے۔
یوکرین پر روسی حملے میں بچے اور عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے یوکرین میں سویلین آبادی کی ہلاکتوں سے متعلق رپورٹوں پر بیان میں کہا ہے کہ یوکرین میں روس کے اقدامات ''بے حسی کی انتہا ہے''۔
اپنی ٹوئٹ میں بلنکن نے بتایا کہ جمعے کو ان کی یوکرین کے وزیر خارجہ، دمتری کلیبا سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی جس میں انھوں نے روسی راکٹ حملوں میں شہری آبادی کی بڑھتی ہوئی اموات سے متعلق اعداد و شمار بتائے، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ جو بھی مظالم کرتا ہے اسے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔
ادھر وائس آف امریکہ کے مشرقی یورپ کے چیف، مزولوا گوگادیز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کی سابق جنرل پراسیکیوٹر، گندز میمادوف سے بات ہوئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ یوکرین میں اب تک کم از کم 42 شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ روسی حملے کا منظر اپنی کھڑکی سے دیکھ رہے ہیں۔
جمعے کی سہ پہر ایک اپ ڈیٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں کھیلوں کی دنیا میں روس کو منفی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ میگزین 'اسپورٹس السٹریٹڈ' نے اطلاع دی ہے کہ پولینڈ، سویڈن اور چیک ری پبلک کی فٹ بال فیڈریشنوں نے کہا ہے کہ عالمی کپ کوالئی فائر مقابلوں کے لیے روس کا سفر نہیں کر سکتے۔
اسی طرح روزنامہ انڈپنڈنٹ نے خبر دی ہے کہ 'فارمولا ون رشن گرانڈ پری' کے مقابلے جو 25 ستمبر سے سوچی کے مقام پر منعقد ہونے والے تھے، انھیں منسوخ کردیا گیا ہے۔