روس کی تاریخ کے ہلاکت خیز واقعے کو منگل کو گیارہ سال مکمل ہو گئے ہیں اور اس واقعے کی برسی کے سلسلے میں مختلف شہروں میں مختلف یادگاری تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔
یکم ستمبر 2004ء کو شمالی خطے اوستیا کے علاقے بیزلان کے ایک اسکول پر شدت پسندوں نے حملہ کر کے تین روز تک یہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنائے رکھا۔ اس واقعے میں 186 بچوں سمیت 340 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
اسکول میں تعلیمی سال کے آغاز کے پہلے ہی روز چیچن اور انگش مذہبی شدت پسندوں پر مشتمل لگ بھگ 30 عسکریت پسند کے گروہ نے اسکول پر دھاوا بولا اور متعدد لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد تقریباً 1100 لوگوں کو یرغمال بنا لیا جن میں آٹھ سو بچے بھی شامل تھے۔
حملہ آوروں نے 52 گھنٹوں تک لوگوں کو یرغمال بنائے رکھا جن کی اکثریت کو اسکول کے جم میں رکھا گیا۔ یہاں درجہ حرارت بہت زیادہ تھا جب کہ یرغمالیوں کو کھانے پینے کی اشیا بھی میسر نہیں تھیں۔
حملے کے تیسرے روز بعض یرغمالیوں کو رہا کر دیا گیا اور پہلے روز ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو بھی اٹھا لے جانے کی حملہ آوروں نے اجازت دے دی۔
لیکن اچانک ہی طاقتور دھماکوں کے بعد یہاں آگ بھڑک اٹھی جس سے جم کی چھت زمین بوس ہو گئی۔
اس کے ساتھ ہی روس کی سکیورٹی فورسز جنہیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل تھی، اسکول میں گھس گئیں اور حملہ آوروں سے ان کی چھڑپ شروع ہوگئی جس کے نتیجے میں 186 بچوں سمیت 340 یرغمالی بھی ہلاک ہوگئے۔
بتایا جاتا ہے یہ حملہ مبینہ طور پر ایک علیحدگی پسند چیچن کمانڈر شامل باسیاف کے گروپ نے کیا تھا۔ باسیاف 2006ء میں مارا گیا تھا۔
باسیاف ابن الخطاب جیسے جہادیوں کے ساتھ کام کرتا رہا ہے جو کہ ایک سعودی باشندہ تھا اور اس کے القاعدہ سے مراسم تھے۔