رسائی کے لنکس

روس کے پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیا ئی ممالک سے رابطے


پاکستان اور روس کے صدور
پاکستان اور روس کے صدور

اسامہ بن لادن کی موت کے بعد، روس نے پاکستان ، افغانستان اور وسط ایشیا سے رابطے قائم کیے ہیں۔ اس کی کوشش ہے کہ روس کے جنوبی حصے کو اسلامی انتہا پسندی سے دور رکھا جائے۔

جمعرات کے روز کریملن میں پاکستان کے صدر کا خیر مقدم کیا گیا۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد یہ ان کا پہلا بڑا غیر ملکی دورہ ہے ۔ روس اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کا عہد کیا۔ صدر آصف زرداری نے روس کے صدر دمتری میدویدف سے کہا کہ ہمارے ملک بہت قریبی ہمسایے ہیں۔ اگرچہ ہماری سرحدیں مشترک نہیں ہیں، لیکن ہم اسی علاقے میں واقع ہیں، اور ہمارے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔

روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں یہ گرم جوشی ایسے وقت پیدا ہوئی ہے جب روس افغانستان کے ساتھ تاجکستان کی سرحد پر تین ہزار روسی فوجی تعینات کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی روس نے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بھی مضبوط بنانا شروع کر دیا ہے ۔

ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس ایسی دنیا میں جب اسامہ بن لادن کا خاتمہ ہو چکا ہے، بڑی عجلت سے اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گذشتہ عشرے کے زیادہ حصے میں روسی عہدے دار افغانستا ن میں نیٹو کی موجودگی پر تنقید کرتے رہے تھے۔

کارنیگی ماسکو سینٹر میں وسط ایشیا کے ماہر الیکسی مالاشنکو کہتے ہیں’’افغانستان میں سوویت روس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ ماسکو میں روسیوں کو یقین تھا کہ امریکی بھی ناکام ہو جائیں گے۔‘‘

اب روسی عہدے داروں کی پریشانی یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی دلی مراد بر آئے ۔ امریکہ میں افغانستان سے فوجیں نکالنے کے لیے عوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ماسکو اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ میں سینڑل ایشیا کی سیکورٹی کے ماہر Andrei Kazanstev کہتے ہیں’’اگر امریکی جلد ہی افغانستان سے نکل گئے تو روسیوں کے لیے یہ بات ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہ ہوگی۔‘‘

حالیہ مہینوںمیں صدر میدویدف نے دو بار افغان صدر حامد کرزئی کی میزبانی کی ہے ۔ عالمی امور کے روسی تجزیہ کار، Konstanin Von Eggert کہتے ہیں’’اس بات کا شدید ڈر ہے کہ امریکیوں اور دوسری فورسز کے جانے کے بعد افغانستان استحکام باقی نہیں رہے گا۔ اور وہاں تقریباً خانہ جنگی کے سے حالات پیدا ہو جائیں گے ۔ یہ اندیشہ بھی ہے کہ طالبان پھر اقتدار پر قبضہ نہ کرلیں۔ طالبان کے نزدیک روسیوں اور امریکیوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ان کے لیے وہ سب دشمن ہیں۔‘‘

طالبان
طالبان

علاقے میں روس کی سرگرمیاں ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کے ساتھ روس نے تجارت اور امداد کے ایک نئے سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔ اس میں سوویت دور کے ایک اسٹیل مل کو جدید بنانا شامل ہے ۔ امریکیوں کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کے قتل سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں، تو پاکستان کے صدر نے روس کو خصوصی تعلقات کی پیش کش کی ہے ۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا ہے کہ زارِ روس کے زمانے سے ہی کوشش کی جا رہی تھی کہ جنوبی سمندروں تک رسائی حاصل ہو جائے ۔

روس کو ڈر یہ ہے کہ اگر امریکی فوجیں تیزی سے واپس چلی گئیں، تو طالبان وسط ایشیا کے دروازوں تک پہنچ جائیں گے۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے روس اسلامی انتہا پسندی سے پاک رکھنا چاہتا ہے ۔Von Eggert کہتے ہیں کہ وسط ایشیا کے ایک کروڑ لوگ جو روس میں کام کرتے ہیں، روس کی مسلمان اقلیت کو انتہا پسندی کی راہ پر ڈال دیں گے۔ طالبان کی کامیابی کا تاجکستان، ازبکستان، اور شاید کرغزستان پر براہِ راست اثر پڑے گا۔

تاجکستان اور ازبکستان سابق سوویت جمہوریتیں ہیں جن کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ شمالی افغانستان میں ازبک اور تاجک نسل کے لوگوں کی بڑی بڑی آبادیاں ہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب کابل پر طالبان کی حکمرانی تھی، روس نے ازبک اور تاجک جنگی سرداروں کو مسلح کیا تھا تا کہ اسلامی انتہا پسندی روس کے تاریخی حلقۂ اثر سے دور رہے ۔

تجزیہ کار متفق ہیں کہ روس افغانستان میں اپنی فوجیں لانے سے پرہیز کرے گا۔ 1990 کی دہائی کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں جب افغانستان میں 15000 سوویت سپاہی ہلاک اور پچاس ہزار زخمی ہوئے تھے۔اگلے سال روس میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں۔ Kazantsev کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ روس، افغانستان میں نیٹو کی فوجوں کی جگہ اپنی فوجیں بھیجنے کی پیشکش کرے گا۔’’اگر روس ایک بار پھر افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجتا ہے، تو روس کے اعلیٰ طبقے کے لیے انتخابات ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو جائیں گے ۔‘‘

لیکن ہو سکتا ہے کہ روس کی طرف سے فوجی تربیت کا پروگرام پھر شروع ہو جائے۔ افغان صدر کے کزن حکمت کرزئی نے اس ہفتے ماسکو میں وائس آف امریکہ سے کہا کہ ہماری بہت سی فوج کو سوویت یونین نے تربیت دی تھی۔ اس قسم کی تربیت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔

مختصر یہ کہ افغانستان میں دس برس تک امریکہ کے ذریعے قائم کیے ہوئے استحکام کے بعد، ہو سکتا ہے کہ وسط ایشیا میں حلقۂ اثر قائم کرنے کے نئے تاریخی کھیل میں روس ایک بار پھر شامل ہونے والا ہو۔

XS
SM
MD
LG